Quantcast
Channel: رعنائیِ خیال
Viewing all 347 articles
Browse latest View live

دستِ عصائے معجزہ گر بھی اُسی کا ہے

$
0
0


دستِ عصائے معجزہ گر بھی اُسی کا ہے
گہرے سمندروں کا سفر بھی اُسی کا ہے

میرے جہاز اسی کی ہواؤں سے ہیں رواں
میری شناوری کا ہنر بھی اسی کا ہے

لشکر زمیں پہ جس نے اتارے ہیں رات کے
کھلتا ہوا نشانِ قمر بھی اسی کا ہے

آب رواں اسی کے اشارے سے ہے سراب
بادل کے پاس گنجِ گہر بھی اسی کا ہے

جو خشک ٹہنیوں سے اگاتا ہے برگ و بار
موسم تمام اس کے شجر بھی اسی کا ہے

منظر میں جتنے رنگ ہیں نیرنگ اسی کے ہیں
حیرانیوں میں ذوقِ نظر بھی اسی کا ہے

بس اپنا اپنا فرض ادا کر رہے ہیں لوگ
ورنہ سناں بھی اس کی ہے سر بھی اسی کا ہے

تیغِ ستم کو جس نے عطا کی ہیں مہلتیں
فریادِ کشتگاں میں اثر بھی اسی کا ہے

تیرا یقین سچ ہے مری چشمِ اعتبار
سب کچھ فصیلِ شب کے ادھر بھی اسی کا ہے

مجرم ہوں اور خرابہء جاں میں اماں نہیں
اب میں کہاں چھپوں کہ یہ گھر بھی اسی کا ہے

خود کو چراغ راہ گزر جانتا ہوں میں
لیکن چراغِ راہ گزر بھی اسی کا ہے

عرفان صدیقی

جشنِ آزادی مبارک

$
0
0

جشنِ آزادی مبارک 

اُن تمام دوستوں کو جو پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور محنت اور ترقی کی راہیں اپنا کر اس ملک کا وقار بلند کر رہے ہیں اور اُنہیں بھی جو پاکستان سے خائف ہیں اور اپنی ترقی کی راہ میں پاکستان کو رکاوٹ سمجھتے ہیں اور ہمیشہ شکایتیں ہی کرتے نظر آتے ہیں۔

ایسے لوگوں کو ہم کچھ نہیں کہیں گے کہ احمد فراز پہلے ہی کہہ چکے ہیں:

شکوہِ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

ایک نغمہ آپ سب کی نذر


مفقود جہاں تھے سبھی آثارِ فضیلت

$
0
0
غزل

مفقود جہاں تھے سبھی آثارِ فضیلت
واں ناز سے باندھی گئی دستارِ فضیلت

میں سادہ روش بات نہ سمجھا سکا اُن کو
حائل تھی کہیں بیچ میں دیوارِ فضیلت

کردار ہی جب اُس کے موافق نہ اگر ہو
کس کام کی ہے آپ کی گفتارِ فضیلت

آؤ کہ گلی کوچوں میں بیٹھیں، کریں باتیں
دربارِ فضیلت میں ہے آزارِ فضیلت

اب صوفی و مُلا بھی ہیں بازار کی رونق
اب سجنے لگے جا بجا بازارِ فضیلت

آیا ہے عجب زہد فروشی کا زمانہ
رائج ہوئے ہیں درہم و دینارِ فضیلت

آنکھوں میں ریا، ہونٹوں پہ مسکان سجائے
ملتے ہیں کئی ایک اداکارِ فضیلت

بس علم و حلم، عجز و محبت ہو جس کے پاس
گر ہے کوئی تو وہ ہے سزاوارِ فضیلت

احمدؔ وہ اگر رمزِ سخن پا نہیں سکتے
ہوتے ہیں عبث آپ گناہگارِ فضیلت


محمد احمدؔ

فرار

$
0
0

کبھی کبھی دل چاہتا ہے اس دنیا سے کہیں بھاگ جاؤں یا کم از کم ایسی جگہ جہاں کوئی جاننے والا نہیں ہو کہ جاننے والے سب کچھ جان کر بھی کچھ نہیں جانتے۔ اجنبی اس لئے اچھے نہیں ہوتے کہ وہ اجنبی ہوتے ہیں بلکہ وہ صرف اس لئے اچھے ہوتے ہیں کہ اُنہیں آپ سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ لیکن دل کا کیا کہیے صاحب، دل تو دل ہے اسے کون سمجھا سکتا ہے، اسے تڑپتے رہنے دینا چاہیے تاکہ اسے بھی کچھ سکون ملے اور آپ کو بھی۔

تم مسیحا نہیں ہوتے ہو تو قاتل ہو جاؤ

$
0
0
غزل

میرے ہونے میں کسی طور تو شامل ہو جاؤ
تم مسیحا نہیں ہوتے ہو تو قاتل ہو جاؤ

دشت سے دُور بھی کیا رنگ دکھاتا ہے جنوں
دیکھنا ہے تو کسی شہر میں داخل ہو جاؤ

جس پہ ہوتا ہی نہیں خونِ دو عالم ثابت
بڑھ کے اک دن اسی گردن میں حمائل ہو جاؤ

وہ ستم گر تمھیں تسخیر کیا چاہتا ہے
خاک بن جاؤ اور اس شخص کو حاصل ہو جاؤ

عشق کیا کارِ ہوس بھی کوئی آسان نہیں
خیر سے پہلے اسی کام کے قابل ہو جاؤ

ابھی پیکر ہی جلا ہے تو یہ عالم ہے میاں
آگ یہ روح میں لگ جائے تو کامل ہو جاؤ

میں ہوں یا موجِ فنا اور یہاں کوئی نہیں
تم اگر ہو تو ذرا راہ میں حائل ہو جاؤ

عرفان صدیقی

یوں تو کوئی دوش نہیں تھا کشتی کا ، پتواروں کا

$
0
0

کسی زمانے میں ہم نے ایک طرحی غزل مشاعرہ ڈاٹ آرگکے لئے لکھی تھی، یوں تو یہ ایک مقابلہ تھا اور یہ غزلسرِ فہرست بھی رہی تاہم ہمارا مقصد محض تفریحِ طبع ہی تھا۔ یہ غزل ابنِ انشاء کے مصرعہ پر لکھی گئی ہے۔ کچھ اُن دنوں طبیعت میں روانی بھی تھی ورنہ ہم ہمیشہ طرحی غزل لکھنے سے گھبراتے ہیں۔ آج یہ غزل یاد آئی تو سوچا بلاگ پر ہی پیش کردی جائے۔


غزل

یوں تو کوئی دوش نہیں تھا کشتی کا ، پتواروں کا
ہم نے خود ہی دیکھ لیا تھا ایک سراب کناروں کا

جھڑتی اینٹیں سُرخ بُرادہ کب تک اپنے ساتھ رکھیں
وقت چھتوں کو چاٹ رہا ہے ، دشمن ہے دیوارں کا

تیز ہوا نے تنکا تنکا آنگن آنگن دان کیا
گم صُم چڑیا طاق میں بیٹھی سوچ رہی ہے پیاروں کا

سُرخ گلابوں کی رنگت بھی اچھی ہے پر سوچتا ہوں
قوس و قزح سی اُس کی آنکھیں ، رنگِ حیا  رخساروں کا

کاش سروں کی بھی قیمت ہو دستاروں کے میلے میں
کاش وفا بھی جنسِ گراں ہو طور تِرے بازاروں کا

دھوکہ دینے والی آنکھیں ، دھوکہ کھا بھی لیتی ہیں
راکھ اُڑا کے دیکھ تو لیتے رنگ ہے کیا انگاروں کا

من میں غم کے پھول کھلیں تو لفظ مہکنے لگتے ہیں
دل آنگن بھی دیکھا ہوتا ، تم نے خوش گُفتاروں کا

بند گلی بھی خود میں جانے رستے کتنے رکھتی ہے
ہم دروازے کھوج نہ پائے ، دوش ہے کیا دیواروں کا

ایسا تھا کہ آنچل بن کے دھرتی کو سُکھ دینا تھا
ورنہ امبر بھی کیا کرتا ، سورج ، چاند ، ستاروں کا

بس یادوں کی کو مل رُت میں عمر تمام گزر جائے
ورنہ احمدؔ ہجر کا موسم ، موسم ہے آزاروں کا

محمد احمدؔ

سلیم کوثر کی دو خوبصورت غزلیں

$
0
0

سلیم کوثر شہرِ کراچی کے معروف شاعر ہیں اور اپنا منفرد اسلوب رکھتے ہیں۔  اُن کی شاعری  گہری فکر اور  بسیط خیالات  پر مبنی ہے۔ سلیم کوثر کی شاعری اثر انگیزی  اور غنائیت کا حسین امتزاج ہے یوں تو غزل ہی  سلیم کوثر کی پہچان ہے لیکن اُن کے ہاں نظم بھی بڑے سلیقے سے کہی گئی ہے۔  

آج اُن کے شعری مجموعے "محبت اک شجر ہے" سے دو خوبصورت غزلیں  آپ کی  نظر۔


دل تجھے ناز ہے جس شخص کی دلداری پر
دیکھ اب وہ بھی اُتر آیا اداکاری پر

میں نے دشمن کو جگایا تو بہت تھا لیکن
احتجاجاً نہیں جاگا مری بیداری پر

آدمی، آدمی کو کھائے چلا جاتا ہے
کچھ تو تحقیق کرو اس نئی بیماری پر

کبھی اِس جرم پہ سر کاٹ دئے جاتے تھے
اب تو انعام دیا جاتا ہے غدّاری پر

تیری قربت کا نشہ ٹوٹ رہا ہے مجھ میں
اس قدر سہل نہ ہو تو مری دشواری پر

مجھ میں یوں تازہ ملاقات کے موسم جاگے
آئینہ ہنسنے لگا ہے مری تیاری پر

کوئی دیکھے بھرے بازار کی ویرانی کو
کچھ نہ کچھ مفت ہے ہر شے کی خریداری پر

بس یہی وقت ہے سچ منہ سے نکل جانے دو
لوگ اُتر آئے ہیں ظالم کی طرف داری پر


اس خرابے کی تاریخ کچھ بھی سہی، رات ڈھلنی تو ہے  رُت بدلنی تو ہے
خیمہء خاک سے روشنی کی سواری نکلنی تو ہے  رُت بدلنی تو ہے

کیا ہوا جو ہوائیں نہیں مہرباں، اک تغیّر پہ آباد ہے یہ جہاں
بزم آغاز ہونے سے پہلے یہاں، شمع جلنی تو ہے رُت بدلنی تو ہے

دامنِ دل ہو یا سایہ ء چشم و لب، دونوں بارش کی طرح برستے ہوں جب
ایسے عالم میں پھر بھیگ جانے کی  خواہش مچلنی تو ہے رُت بدلنی تو ہے

ابر کے سلسلے اور پیاسی زمیں ، آگ بجھتی ہے پانی سے سورج نہیں
کہساروں پہ جمتی ہوئی برف اک دن پگھلنی تو ہے رُت بدلنی تو ہے

عشق ایجاد ہم سے ہوا ہے سو ہم، اس کے رمز و کنایہ سے واقف بھی ہیں
تیرے بیمار کی یہ جو حالت ہے آخر سنبھلنی تو ہے، رُت بدلنی تو ہے

سلیم کوثر

تیرہواں کھمبا

$
0
0

تیرہواں کھمبا

منشا یاد /  محمد ابراہیم جمالی


پاکستان میں بولی جانے والی تقریباً تمام ہی زبانیں ادبی سرمائے سے مالا مال رہیں ہیں۔ ان زبانوں میں بلا شبہ بہترین ادب تخلیق ہوتا  رہا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے۔ پنجابی ادب کا دامن بھی ایسی تحریروں سے خالی نہیں ہے۔ اسی ادب سے منتخب کردہ ایک شہ پارہ۔

محبت کبھی نہیں مرتی کی جیتی جاگتی عملی تصویر

گاڑی نے وسل دے کر سبز جھنڈی لہرا دی۔ 
ریل کار روانہ ہونے والی تھی۔ عین آخری لمحات میں ایک نو بیاہتا جوڑا اس کے سامنے والی سیٹوں پر آکر بیٹھ گیا۔ اچانک اسے محسوس ہوا جیسے وہ ریل کی نرم اور آرام دہ سیٹ پر نہیں بیٹھا بلکہ ریل کی تپتی ہوئی آہنی پٹری پر اوندھے منہ پڑا ہے۔ 

لڑکی اسے دیکھ کر یوں ٹھٹک گئی جیسے وہ راولپنڈی جانے والی ریل کار کے بجائے غلطی سے ملتان جانے والی گاڑی میں سوار ہو گئی ہو۔ اس کے شوہر نے آگے بڑھ کر اپنے رومال سے سیٹ صاف کرتے ہوئے محبت سے کہا "بیٹھو انجی!" 
"انجی۔۔۔ انجی۔۔۔ انجی۔۔۔!" گویا اس پر چاروں طرف سے اس نام کے پتھر برسنے لگے۔ اس کا پوار وجود لہولہان ہوگیا۔ اسے یوں لگا جیسے تیز رفتار ریل کا انجن اس کے اوپر سے گزر گیا ہو اور اس کا جسم لوتھڑوں کی صورت ہوا میں منتشر ہو گیا ہو۔ 

لڑکی اپنی سیٹ پر کھڑکی کی طرف منہ کرکے بیٹھ گئی اور اس سے نظریں چرانے لگی۔ اسے محسوس ہوا کہ اس کی موجودگی سے وہ پریشان ہوگئی ہے۔ اس نے وہاں سے اٹھ جانا چاہا اور اسی خیال سے کسی خالی سیٹ کے لئے اِ‌دھر اُدھر نگاہیں دوڑائیں لیکن تمام سیٹوں پر مسافر بیغھے ہوئے تھے۔ کوئی سیٹ خالی نہیں تھی۔ اتنا طویل سفر، لاہور سے راولپنڈی تک۔۔۔ وہ کھڑے ہوکر کیسے گزار سکتا تھا؟

وہ سیٹ پر بیٹھا رہا۔ تاہم تہ کیا ہوا اخبار کھول کر اپنے سامنے کر لیا تھا۔ وہ اس کی اوٹ میں خود کو چھپانے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔ 
ریل کار حرکت میں آگئی۔ وہ کھڑکی سے لگی، گردن جھکائے شوہر سے سرگوشیوں میں باتیں کرنے لگی۔ وہ بظاہر اخبار پڑھ رہا تھا لیکن اس کے اندر کوئی دیو ہیکل انجن جلدی جلدی پٹریاں بدل رہا تھا۔ آخرکار اس نے اخبار چھوڑ کر کھڑکی سے باہر کے مناظر میں پناہ لی۔ ہر طرف ریل کی پٹریوں کا جال بچھا ہوا تھا۔ ریل کے خالی اور ناکارہ ڈبے اِ دھر سے اُدھر خاموشی سے کھڑے ہوئے تھے اور کانٹے بدلتی، فاصلہ طے کرتی ریل کا رکو رشک بھری نظروں‌سے دیکھ رہے تھے۔ 
ریل کی بے شمار پٹریاں دیکھ کر اسے خیال آیا ، اگر وہ ریل کا انجن ہوتا تو بوکھلا جاتا اور ضرور کسی غلط پٹری پر جا کر کسی دوسرے انجن سے جا ٹکراتا۔

تصادم کے خیال سے اسے عجیب خوشی اور لذت محسوس ہوئی۔ اس کا جی چاہا کہ کاش وہ واقعی کوئی طاقتور ریل کا انجن ہی ہوتا جو سیٹیاں بجاتا، شور مچاتا، دھول مٹی اُڑاتا، دندناتا ہوا کسی دوسرے انجن سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجاتا۔ کسی انجن کے نیچے آکر ٹکڑے ٹکڑئ ہوجانے اور خود انجن بن کر کسی دوسرے انجن سے ٹکرا کر منتشر ہوجانے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ 
ریل کار اب راوی پر سے گزر رہی تھی۔ 
بوٹنگ کرتے ہوئیے لوگ نظر آئے تو اس نے تڑپ کر انجم کی طرف دیکھا۔ لیکن وہ دونوں تو ایک دوسرے میں گم تھے۔ انجم اپنے شوہر سے سرگوشیوں میں میٹھی میٹھی باتیں کر رہی تھی۔ شوہر بڑے انہماک کے ساتھ شیریں لبوں سے جھڑنے والے پھول چن رہا تھا۔

راوی کسی حسین لمحے کی طرح جلدی سے گزر گیا۔ 
اس کے دل پر دیر تک چپو چلتے رہے۔ سینے میں مقید سرد آہ گویا حلق میں آکر اٹک گئی۔ اچانک کھڑکی سے باہر کچھ فاصلے پر کھجور کے درختوں کے عقب میں چھپی ہوئی مقبروں کی عمارتیں کسی حسین سپنے کی طرح دکھائی دینے لگیں۔ جہانگیر اور نور جہاں کے مقبرے قریب قریب تھے لیکن ان کے درمیان ریل کی پٹریاں حائل ہوگئی تھیں۔ وہ زنجیر کھینچے بغیر چلتی ہوئی تیز رفتار ریل کار سے اتر گیا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا پانچ برس کا طویل سفر طے کرنے لگا۔

پانچ برس قبل ایبٹ آباد میں ایک شام اسے انجم کا تار ملا تھا "فوراً  لاہور پہنچو۔"" 
اس نے لباس تک تبدیل نہیں کیا اور تار ملتے ہی لاہور کے لیے روانہ ہوگیا۔ اگلے دن علی الصباح خیبر میل سے اتر کر منہ ہاتھ دھوئے بغیر گرد آلود کپڑوں میں ہی بھاگم بھاگ گرلز ہاسٹل پہنچا۔ وہ اندر ہی اندر سخت پریشان تھا کہ انجم نے اسے کیوں بلوایا ہے۔ وہ اس کی خیریت کی دعائیں مانگتا ہوا منزل پر پہنچا لیکن جب اسے معلوم ہوا کہ انجم کی آج چھٹی تھی اور وہ اس کے ساتھ سیر کی غرض سے کہیں جانا چاہتی تھی۔۔۔ تو اس کی تمام تھکن دور ہو گئی۔ اس کا وجود خوشی اور چاہت سے سرشار ہوگیا۔

ایبٹ آباد سے لاہور تک کا سفر سمٹ کر ایک نقطہ بن گیا۔ سفر کی تکان ہوا ہوگئی۔ بس اور ٹرین کا طویل سفر اسے پھولوں کی ایک پینگ محسوس ہوا۔ اسے یوں لگا جیسے اس نے کسی فلم میں‌ہیرو کا بہروپ بھرنے کے لئے یہ گیٹ اَپ کیا تھا۔۔۔ یعنی شکن آلود لباس اور گرد میں اٹے بال۔

انجم سچ مچ نگاہوں کے کیمرے سے اس کی تصویریں اتار رہی تھی۔ پھر جب وہ ایبٹ آباد واپس چلا جائے گا تو فراق کے لمحات میں میں، تنہا اور تاریک کمرے میں بیٹھ کر آنکھوں کے کیمرے کی اس فلم کو اپنے آنسوؤں سے دھوئے گی اور تمام نیگیٹیوز کو یادوں کی کسی دو چھتی میں چھپا دے گی۔ پھر وہ لاکھ سر پٹختا رہے، اس کے ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔ 
وہ بہت حیران ہوا۔ انجم یکایک اس پر اتنی مہربان کس طرح ہوگئی تھی۔ وہ تو ہمیشہ اس سے ہر تصویر چھپا کر رکھتی تھی لیکن آج۔۔۔؟ شاید وہ آج تک اسے آزما رہی تھی۔ شاید آج وہ اس کانٹے کا بھی ذکر کردے جو اسے اندر ہی اندر لہولہان کرتا رہتا تھا لیکن وہ بظاہر ہنستی، مسکراتی نظر آئی تھی۔ کوئی انجانا اندیشہ اسے ہر وقت روگی بنائے رکھتا تھا مگر وہ کچھ بتاتی نہ تھی۔ پوچھنے پر ہنس دیتی تھی۔

دونوں ایک دوسرے کی قربت سے مسرور ہنستے مسکراتے ایک ہوٹل میں چلے گئے۔ وہ چائے پینے سے پہلے اٹھ کر غسل خانے میں چلا گیا۔ منہ ہاتھ دھو کر بال درست کیے۔ پھر دونوں ناشتا کرنے لگے۔ وہ خوشی سے کھلی جا رہی تھی ۔ کہنے لگی

مجھے یقین تھا  تم ضرور آؤگے۔۔۔ میرا اندازہ تھا کہ تم خیبر میل سے پہنچو گے۔۔۔ مجھے معلوم تھا تم ناشتا بھی میرے ساتھ کروگے۔۔۔ میں‌جانتی تھی، تم ٹرین سے اتر کر سیدھے میرے پاس آؤگے۔۔۔ مجھے پتا تھا۔۔۔ مجھے یقین تھا۔۔۔ میں جانتی تھی۔۔۔ میں جانتی تھی۔۔۔

"تم نہیں جانتی انجی! میں نے تمھارے بغیر ولایت میں اتنا عرصہ کس طرح گزارا" اس کے شوہر نے کہا۔

"میں جانتی ہوں۔۔۔ میں جانتی ہوں۔۔۔" وہ مزید کچھ بھی نہ کہہ سکی ۔ ریل کار دوڑتی رہی ۔ مڑ کر دیکھے بغیر۔۔۔۔ وہ مڑکر دیکھ بھی نہیں سکتی تھی۔

اس کا جی چاہا کہ وہ اپنی انگلیوں کو چبا ڈالے تاکہ اسے معلوم ہو کہ کہیں وہ خواب تو نہیں دیکھ رہا۔ اس نے اسی خیال کے تحت اپنے ہاتھ کو جنبش دی تاکہ انگلیوں پر دانت گاڑ کر اس اذیت ناک خواب سے جاگ جائے لیکن۔۔۔۔ اس کے تو دونوں ہاتھ ہی موجود نہیں تھے پھر اس نے دیکھ کہ اس  کی دونوں ٹانگیں بھی غائب ہیں۔ گویا اس کا وجود ہوا میں تحلیل ہوگیا تھا۔ اس نے گھبرا کر اپنے جسم کو ٹٹوولا مگر وہ سیٹ جو اس نے اپنے لئے ریزرو کرائی تھی۔۔۔۔ اب خالی پڑی تھی۔ 
اسی وقت ، عین اسی لمحے جب وہ خود کو تلاش کر رہا تھا، اچانک اس کے قریب جیسے کوئی کلی چٹخی۔ جانی پہچانی خوشبو کا ایک ہلکا سا جھونکا آیا ۔ اس نے سکون کا سانس لیا۔ یہ جان کر کہ وہ مطمئن ہوگیا کہ جسم کے بغیر بھی وہ سونگھ سکتا ہے۔ سن سکتا ہے، سوچ سکتا ہے، رو سکتا ہے  اور گا سکتا ہے۔ وہ گانے لگا۔
"ڈولی چڑھدیاں ماریاں ہیر چیکاں
مینوں لے چلے بابلا لے چلے"

وہ گاتا رہا۔ درخت ، گاؤں، کچے پکے راستے، کھیت اور ریلوے اسٹیشن یکے بعد دیگرے گزرتے رہے۔ اسے ہیر وارث شاہ کے کئی اشعار ازبر تھے۔ ایک بند ختم ہوا تو اس نے دوسرا شروع کردیا۔ 
"وارث رن، فقیر، تلوار، گھوڑا 
چارے تھوک ایہہ کسے دے یار ناہیں"

اس کی آواز بلند سے بلند تر ہوتی چلی گئی۔ اس کی آواز میں بڑا درد اور سوز تھا۔ مگر پوری بوگی میں کسی نے بھی اس کے گانے پر توجہ نہ دی جیسے تمام لوگ اپنے کانوں میں روئی ٹھونس کر بیٹھے ہوں۔ وہ دونوں بدستور سرگوشیوں میں مصروف تھے۔ وہ اس کے گانے سے ذرا بھی متاثر نہیں ہوئے تھے۔ وہ خود ہی چپ ہو گیا۔ اس کا دل بیٹھ گیا اور مقدر سوگیا۔ 

بوگی میں کہیں ویت نام اور امریکا پر تو کہیں سوشلزم پر گفتگو ہو رہی تھی۔ کوئی ہنی مون اور مری کے نظاروں کا ذکر کر رہا تھا۔ اسے ڈائننگ کار کے بیرے پر بڑا ترس آیا۔  اس بے چارے کی بات کوئی سن ہی نہیں رہا تھا۔ اس کا جی چاہا کہ ڈائننگ کار کے بیرے کو بلا کر اپنے قریب بٹھائے اور اسے ہیر وارث شاہ کے اشعار سنائے۔ اسی وقت مری، سوات اور ہنی مون کے الفاظ کا شور اس قدر پھیل گیا کہ ویت نام،  امریکا، سوشلزم اور ڈائننگ کار کے بیرے کی آواز اس میں دب کر رہ گئی ۔

اس نے بڑے شور سے  بچنے کے لئے اپنے کانوں میں گاڑی کا شور بھر لیا۔ پھر وہ کھڑکی سے باہر ٹیلی فون کے لائن کے تار  اور کھمبے گننے لگا۔ ابھی وہ بارہ ہی کھمبے گن پایا تھا کہ ایک کھمبے کا فرق آگیا۔"  نہ جانے یہ تیرہواں کھمبا تھا یا چودھواں۔ وہ اسی الجھن میں تھا کہ دو تین کھمبے اور گزر گئے۔ اب جو کھمبا سامنے تھا جانے یہ سولہواں تھا یا سترہواں؟ اگر چودھواں  اصل میں تیرہواں تھا تو پھر یہ پندرہواں  ہونا چاہیے۔ یا شاید سولہواں تھا۔۔۔ لیکن پندرہواں تو اصل میں چودہواں تھا اور اس حساب سے۔۔۔"

"میری صرف پندرہ  چھٹیاں باقی رہ گئی ہیں ۔انجی!"
"اور ۔۔۔ اس حساب سے بیسواں اصل میں پندرہواں ۔۔۔ نہیں انیسواں ۔۔۔ سولہواں تو بالکل غلط گن گیا۔ وہ دراصل پندرہواں کھمبا تھا۔ اصل میں کھمبے صرف پندرہ ہی تھے۔ ہر پندرہویں کھمبے کے بعد پہلا کھمببا شروع ہوچاتا ہے لیکن وہ تمام کھمبوں کو گن گن کر پندرہ پر تقسیم بھی تو کر سکتا ہے۔ اسے یاد آیا کہ اس نے بچپن میں میں بہت سی چیزیں سیکھی تھی۔  ستاروں کی تعداد تو اب اسے  یاد نہیں رہی تھی لیکن ایک میل کے درمیان سترہ کھمبے تھے۔ اس نے سترہ کھمبوں سے ایک سو پچھتر میلوں کو ضرب دیا۔ دس میل لمبی  اس ضرب میں بے شمار چیزیں شامل ہو گئیں ۔ درخت، کھیت، چلتے پھرتے دیہاتی لوگ، جانور، بھیڑ بکریوں کے ریوڑ اور ریلوے لائن کے متوازی جاتی ہوئی شاہراہ اعظم کی بسیں، ٹرک، کاریں، ریڑھے اور ٹاہلی کے بے شمار درخت!
اس حساب سے نہ جانے کتنی بھیڑیں، کتنے ٹرک، درخت اور کھمبے حاصل ضرب تھے۔ اب معلوم نہیں اس ضرب کو پندرہ میلوں پر تقسیم کرنا تھا یا پندرہ بکیروں پر؟ لیکن وہ تو کھمبے گن رہا تھا۔ بارہ کھمبے اس نے صحیح سالم گن لئے تھے۔ تیرہویں کھمبے کا گھپلا ہوگیا تھا۔ اسے اپنے حساب  میں  نہ آنے والا تیرہواں کھمبا شدت سے یاد آتا تھا۔
بے چارہ تیرہواں کھمبا !
"بارہ برس بعد تو رُوڑی کے دن بھی پھر جاتے ہیں" یہ مثل اس نے سنی ہوئی تھی۔ 
پھر یہ تیرہواں کھمبا کس طرح گنتی میں آنے سے رہ گیا؟ 
نہ جانے کس  ویران جگہ پر خاموش اور تنہا کھڑا ہوگا بے چارہ ۔۔۔۔! نہ جانے کیا سوچ رہا ہوگا۔"
پھر اسے "تیرہ" کے محاورے یاد آنے لگے۔
"نہ تین میں نہ تیرہ میں۔"
"نو نقد نہ تیرہ ادھار۔"
"چناب آگیا انجی!" اس کے شوہر نے کہا " اور یہ لو چائے، چکن سلائس اور شامی کباب۔"
اس نے ناک سکوڑ کر کہا "میں نہیں کھاتی یہ کباب، اس میں سے کیسی بو آرہی ہے۔"
"انجی ! یہ مچھلی کے کباب ہیں۔ آج گوشت کا ناغہ ہے نا۔"
"شاید باسی مچھلی تھی۔۔۔ بڑی خراب بو آرہی ہے۔" انجم نے بدستور  ناگواری سے کہا۔ 
اس کی رانوں میں درد ہونے لگا۔ اس کے دل میں آیا کہ زخمی ران سے تمام پٹیاں نوچ کر اسے دکھائے اور بتائے " آج طورفان  اور بارش کی وجہ سے مجھے کوئی مچھلی نہ مل سکی اس لئے میں نے اپنی رانیں چیر کر تمھارے لئے کباب تلے ہیں۔۔۔ مگر تمھیں ان میں سے بو  آ رہی ہے۔! تم انہیں باسی کہتی ہو؟"
لیکن وہ یہ سب کچھ کہہ نہ سکا اور سگریٹ سلگا کر پینے لگا۔ وہ چکن سلائس کھاتے ہوئے چائے پیتی رہی ۔اس کے شوہر نے کہا "انجی! مجھے ستار بہت پسند ہے۔ میرا ایک دوست بہترین ستار نواز ہے۔ کبھی سنیں گے۔"
اس نے ریل کار میں بیٹھے بیٹھے ٹیلی فون لائن کے کھمبے اکھاڑے اور پھر ان کو آگے پیچھے کر کے گاڑ دیا۔ اس طرح ڈھیلے تار تن گئے۔ اس نے کھڑکی سے ہاتھ باہر نکال کر بازو  دراز   کیا اور ستار بجانے لگا۔ ستار بجاتے بجاتے اس کی  انگلیاں لہولہان ہو گئیں۔ گجرات سے جہلم تک ٹیلی فون لائن کی تمام تاریں سرخ ہوگئیں مگر اسے کسی نے داد نہ دی۔ جہلم اسٹیشن پر ریل کار رکی اور اس کا شوہر کسی کام سے نیچے اترا تو اس کا جی چاہا کہ وہ آگے بڑھ کے انجم کا ہاتھ تھام لے اور مخالف سمت کے دروازے سے نیچے اتر جائے۔ اور واپس لے جاکر اس وہ سارے تار دکھائے جو اس کی انگلیوں کے لہو سے سرخ ہوگئے تھے۔ پھر وہ دونوں پٹری کے ساتھ ساتھ چلتے  وارث شاہ  کے بکھرے  ہوئے مصرعے چنیں ۔۔ ۔ اور گنتی سے رہ جانے والے تنہا، اداس اور ویران تیرہویں کھمبے سےجا کر لپٹ جائیں۔ پھر وہ اتنا روئیں کہ اس کھمبے کے ارد گرد اور کچھ نہیں تو  کم سے کم گھاس ہی اُگ آئے۔ پھر اس نے سوچا کہ وہ کوئی ایسی بات کہے کہ انجم ایک بار اس کی طرف دیکھنے پر مجبور ہو جائے مگر اسے کوئی جملہ نہ سوجھ سکا۔ وہ خاموش رہا۔ وہ بار بار اس دروازے کی طر ف بے چینی سے دیکھ رہی تھی جہاں سے اس کا شوہر اترا تھا۔ 
ایک بار اسے یہ خیال بھی آیا کہ وہ اس لڑکی کو بالکل نہیں پہچانتا ۔ نہ جانے کون ہے؟
اس کا شوہر آیا تو وہ اس سے جھگڑنے لگی " آپ نے اتنی دیر کیوں لگا دی؟"
وہ ہنس دیا، کہنے لگا "تم تو بچوں کی طرح گھبرا جاتی ہو انجی!"
شام ہوگئی وہ کھڑکی کے شیشے میں اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کے چہرے کے پس منظر میں ٹیڑھے میڑھے درخت، اداس کھمبے اور خشک پہاڑیاں تھیں۔ تاریک بڑھتی جا رہی تھی ۔ جس قدر اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا، شیشے میں اس کی تصویر شوخ اور واضح ہوتی جا رہی تھی۔ وہ اس اندھیرے کو دعائیں دینے لگا۔ 
لیکن وہ اس اندھیرے سے سہم  گئی تھی۔ جیسے اس کے ارد گرد انسان نہیں چڑیلیں شور مچا رہی ہوں۔ وقت ایک سیاہ عفریت کی طرح  اس کے چہرے کے پس منظر میں ساتھ ساتھ  بھاگا جا رہا تھا۔ وہ اس قدر ڈر گئی تھی کہ وہ بھی اسے دیکھ کر سہم گیا۔ کھڑکی کے شیشے میں وقت کا عفریت تھا جسے وہ دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ اٹھا اور بوگی کے  دروازے پر آن کھڑا ہوا۔ 

اس کی طرف دونوں کی پشت تھی۔ وہ دونوں کے چہرے تو نہیں دیکھ سکتا تھا لیکن اسے یقین تھا کہ سامنے والی سیٹ خالی ہوتے ہی کھڑکی سے باہر والا عفریت کسی کھمبے سے ٹکرا کر مر گیا ہوگا۔ اس نے خالی سیٹ پر اپنے مہندی سے رچے  ہوئے پاؤں رکھ لئے ہوں گے اور بڑے سکون سے پہلے کی طرح دوبارہ اپنے شوہر سے میٹھی میٹھی باتیں کرنے لگی ہوگی۔ 
اسے ایک بار پھر تیرہواں کھمبا یاد آیا۔ نہ جانے کس ویران جگہ پر اداس کھڑا ہوگا اور نہ جانے کیا سوچ رہا ہوگا۔ بے چارہ۔۔۔ گنتی میں آجاتا تو کتنا خوش ہوتا۔ 
پھر اسے محسوس ہوا کہ وہ کھمبا پیچھے نہیں رہ گیا بلکہ  ساتھ ساتھ ہی دوڑا چلا آرہا ہے ۔ اس نے تاریکی میں آنکھیں پھاڑ کر گھورا اور حیران رہ گیا۔ "یہ تو وہی تیرہواں کھمبا ہے جو بار بار نظر آرہا ہے۔"
بارہ تک اس نے گنتی صحیح گنی تھی۔ جب تک وہ اس  تیرہویں کھمبے کو شمار نہیں کرلے گا یہ ساتھ ساتھ دوڑتا رہے گا۔ اس کا جی چاہا کہ وہ چھلانگ مار کر اس کھمبے سے لپٹ جائے لیکن اسی لمحے ہوا کا ایک جھونکا اس سے لپٹ کر کہنے لگا ۔ 
"باہر مت جانا، بہت اندھیرا ہے۔"
اس نے دروازہ بند کرنا چاہا تو سرد ہوا کے بے شمار جھونکے دروازے پر دستک دینے لگے۔ اس نے دروازہ کھول دیا۔ ہوا کے جھونکے  سسکتے ہوئے اندر آنے لگے ۔ اس نے تاریکی سے خوف زدہ اور سہمے ہوئے ہوا کے جھونکوں  کو اپنے سلگتے ہوئے وجود میں پناہ دی۔ اس طرح اسے بہت سکون محسوس ہوا پھر اس نے اپنے جلتے ہوئے بدن سے سگریٹ سلگایا۔ چنگاریاں اُڑیں اور اپنے ہی سگریٹ کا دھواں اس کی آنکھوں میں گھس گیا۔
ہوا کے سرد جھونکے اس کے جسم کے گرد لپٹے جا رہے تھے اور ریل کار پہاڑیوں کے درمیان بھاگی جا رہی تھی ۔ چہار سو تاریکی پھیلی  ہوئی تھی۔ کبھی کبھی کسی پہاڑی گاؤں میں روشن کوئی دیا ٹمٹماتا نظر آجاتا۔ ریل کار تیزی سے فاصلے سمیٹ رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے اسے کے پہیوں  کے نیچے خوفناک عفریت کٹتے جا رہے تھے۔ وسل دیتی،  سرنگیں پار کرتی، ریل کار اڑی چلی جارہی تھی۔ بوگی میں اب شور بہت کم ہوگیا تھا۔ ہر شخص اونگھ رہا تھا ۔ کچھ لوگ تھکے تھکے سے انداز میں اپنے ساتھیوں سے باتیں کر رہے تھے۔ مسافروں کے چہروں پر تھکاوٹ اور بیزاری عیاں تھی۔ 
اچانک ریل کار کی رفتار گھٹنے لگی اور ایک جھٹکے سے رک  گئی۔ لوگ ایک دوسرے پر گر گئے۔ "کیا ہوا؟"
"سگنل ڈاؤن نہیں ہوگا۔"
بھائی کوئی  نیچے تو نہیں آگیا۔"
کسی کے نیچے آجانے کی بات سن کر وہ لرز گئی۔ اسے محسوس ہوا جیسے اس کے اوپر سے ریل کار گزر گئی ۔ اس کا رنگ  فق ہوگیا اور چیخ کر بولی " ہائے میں مر گئی۔۔۔۔ اس نے خود کشی کر لی ہوگی۔" 
"کس نے  خود کشی کر لی ہوگی۔۔۔ اور تمھیں کیا ہوگیا انجی!"
"اس نے ۔۔۔" وہ سسکتی ہوئی سامنے کی خالی سیٹ کی طرف دیکھ کر بولی " جو یہاں۔۔۔ سامنے کی سیٹ پر بیٹھا تھا۔"
اس کے شوہر نے پلٹ کر دروازے  کی طرف دیکھا۔ وہ دروازے پر کھڑا سگریٹ کے کش لیتا ہوا، ہوا کے جھونکوں سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا۔ جیسے اس کے کھمبوں کی گنتی درست ہو گئی ہو۔ 

بشکریہ:سسپنس ڈائجسٹ۔


غزل ۔ تعلق رکھ لیا باقی، تیّقن توڑ آیا ہوں

$
0
0
غزل

تعلق رکھ لیا باقی، تیّقن توڑ آیا ہوں
کسی کا ساتھ دینا تھا، کسی کو چھوڑ آیا ہوں

تمھارے ساتھ جینے کی قسم کھانے سے کچھ پہلے
میں کچھ وعدے، کئی قسمیں، کہیں پر توڑ آیا ہوں

محبت کانچ کا زنداں تھی یوں سنگِ گراں کب تھی
جہاں سر پھوڑ سکتا تھا، وہیں سر پھوڑ آیا ہوں

پلٹ کر آگیا لیکن، یوں لگتا ہے کہ اپنا آپ
جہاں تم مجھ سے بچھڑے تھے، وہیں رکھ چھوڑ آیا ہوں

اُسے جانے کی جلدی تھی، سومیں آنکھوں ہی آنکھوں میں
جہاں تک چھوڑ سکتا تھا، وہاں تک چھوڑ آیا ہوں

کہاں تک میں لئے پھرتا محبت کا یہ اِکتارا
سو اب جو سانس ٹوٹی، گیت آدھا چھوڑ آیا ہوں

کہاں تک رم کیا جائے، غزالِ دشت کی صورت
سو احمدؔ دشتِ وحشت سے یکایک دوڑ آیا ہوں

محمد احمدؔ

ہر گھر سے بھٹو نکلے گا

$
0
0

آپ نے یہ مشہورِ عوام شعر تو سنا ہی ہوگا۔ 

یہ بازی خون کی بازی ہے، یہ بازی تم ہارو گے
ہر گھر سے  بھٹو نکلے گا تم کتنے بھٹو مارو گے

یہ شعر پاکستان  پپلز پارٹی میں شاید بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد مقبول ہوا اور آج بھی گاہے گاہے سنائی دیتا ہے۔  کیا ہی اچھا ہوتا کہ واقعی اس شعر کے مصداق ہر گھر سے بھٹو جیسے قابل لیڈر نکلتے اور ان کو بلا امتیازِ رنگ و نسل پارٹی کی قیادت کا حق آئینی اور جمہوری طریقہ سے ملتا۔  لیکن ایسا ہوا نہیں ! بھٹو صاحب بلاشبہ قابل لیڈر تھے  لیکن بھٹو صاحب کسی  مقتدر خاندان کے چشم و چراغ نہیں تھے اور اُنہیں عوام نے منتخب کیا تھا۔ 

تاہم آج کی پپلز پارٹی بھٹو صاحب کے گھرانے تک محدود ہوگئی ہے اور کچھ دیگر قریب ترین لوگوں کو بھی پارٹی کا حصہ بننے کے لئے اپنے نام کے ساتھ بھٹو کا لاحقہ لگانا پڑتا ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) میں بھی اکثر نام نواز اور شہباز کے لاحقے کے ساتھ ہی نظر آتے ہیں ۔ ایسی سیاسی جماعتوں کو اگر کوئی بھی جمہوری پارٹی سمجھتا ہے تو شاید وہ جمہوریت کی روح سے واقف نہیں ہے۔ 

جمہوریت انتقام کا نام نہیں ہے۔ جمہوریت عوام کی حاکمیت کا نام ہے اور تمام لوگ جو سرکاری عہدوں پر موجود ہیں یا آئندہ ہوں گے وہ حاکم نہیں عوام کے خادم ہیں  کہ  ان کے گھر کا چولہا عوام کے ٹیکسز سے جلتا ہے۔ 

خرد کا نام جنوں رکھ دیا، جنوں کاخرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے



شہزاد احمد صاحب کی دو خوبصورت غزلیں

$
0
0

شہزاد احمد صاحب کی دو خوبصورت غزلیں

حال اس کا ترے چہرے پہ لکھا لگتا ہے
وہ جو چپ چاپ کھڑا ہے ترا کیا لگتا ہے

یوں تری یاد میں دن رات مگن رہتا ہوں
دل دھڑکنا ترے قدموں کی صدا لگتا ہے

یوں تو ہر چیز سلامت ہے مری دنیا میں
اک تعلق ہے کہ جو ٹوٹا ہوا لگتا ہے

اے مرے جذبِ دروں مجھ میں کشش ہے اتنی
جو خطا ہوتا ہے وہ تیر بھی آ لگتا ہے

جانے میں کون سی پستی میں گرا ہوں شہزاد 
اس قدر دور ہے سورج کہ دیا لگتا ہے۔

***********

جل بھی چکے پروانے، ہو بھی چکی رسوائی
اب خاک اُڑانے کو بیٹھے ہیں تماشائی

تاروں کی ضیا دل میں اک آگ لگاتی ہے
آرام سے راتوں کو سوتے نہیں سودائی

راتوں کی اُداسی میں خاموش ہے دل میرا
بے حس ہیں تمنائیں، نیند آئی کہ موت آئی

اب دل کو کسی کروٹ آرام نہیں ملتا
اک عمر کا رونا ہے، دو دن کی شناسائی

اک شام وہ آئے تھے، اک رات فروزاں تھی
وہ شام نہیں لوٹی وہ رات نہیں آئی

شہزادؔ احمد

نظم ۔ منزل تمھاری ہے ۔ محمد احمد

$
0
0
منزل تمھاری ہے
(مرکزی خیال ماخوذ)
اگر تم دل گرفتہ ہو
کہ تم کو ہار جانا ہے
تو پھر تم ہار جاؤ گے
اگر خاطر شکستہ ہو
کہ تم کچھ کر نہیں سکتے
یقیناً کر نہ پاؤ گے

یقیں سے عاری ہو کر
منزلوں کی سمت چلنے سے
کبھی منزل نہیں ملتی
کبھی کنکر کے جتنے حوصلے والوں 
سے بھاری سل نہیں ہلتی

زمانے میں ہمیشہ کامیابی
اُن کے حصے میں ہی آتی ہے
جو اول دن سے اپنے ساتھ 
اک عزمِ مصمّم لے کے چلتے ہیں
کہ جن کے دل میں عزم و حوصلہ اک ساتھ پلتے ہیں

اگر تم چاہتے ہو کامیاب و کامراں ہونا 
تو بس رختِ سفر میں
تم یقین و عزم کی مشعل جلا رکھنا
سفر دشوار تر ہو 
تب بھی ہمت، حوصلہ رکھنا

سفر آغاز جب کرنا 
تو بس اتنا سمجھ لینا 
جہاں میں کامیابی کی یقیں والوں سے یاری ہے
اگر تم بھی یقیں رکھو 
تو پھر منزل تمھاری ہے۔

محمد احمدؔ

اس نظم کا مرکزی خیال انگریزی زبان کی ایک نظم (The Man Who Thinks He Can) سے لیا گیا ہے۔ یہ نظم مجھے بہت پسند ہے ۔ میں نے کوشش کی کہ اس کا ترجمہ کروں، لیکن ساتھ ساتھ یہ احساس بھی رہا کہ شاید میں ترجمے کا حق ادا نہیں کر سکوں گا۔ پھر اگر میں اس نظم کا من و عن منظوم ترجمہ کر بھی دیتا تو یہ ترجمہ شاید اردو زبان کے مزاج سے لگا نہیں کھاتا، سو میں نے اس نظم کا مرکزی خیال لے کر اپنی سی ایک کوشش کی ہے۔ انگریزی نظم بھی آپ کے مطالعے کے لئے پیش ہے۔ 

      The Man Who Thinks He Can
If you think you are beaten, you are;
If you think you dare not, you don’t!
If you’d like to win, but think you can’t,
It’s almost a cinch that you won’t.
If you think you’ll lose, you’re lost
For out in the world we find
Success begins with a fellow’s will;
It’s all in the state of mind!
If you think you’re outclassed, you are;
You’ve got to think high to rise.
You’ve got to be sure of yourself
Before you can win the prize.
Life’s battles don’t always go
To the strongest or fastest man;
But sooner or later the man who wins
Is the man who thinks he can! 
- Walter D. Wintle

عبیداللہ علیم کی دو خوبصورت غزلیں

$
0
0

عبیداللہ علیم کی دو خوبصورت غزلیں

وہ خواب خواب فضائے طرب نہیں آئی
عجیب ہی تھی وہ شب، پھر وہ شب نہیں  آئی

جو جسم و جاں سے چلی جسم و جاں تلک پہنچی
وہ موجِ گرمیٔ    رخسار و لب نہیں  آئی

تو پھر چراغ تھے ہم بے چراغ راتوں کے
پلٹ کے گزری ہوئی رات جب نہیں آئی

عجب تھے حرف  کی لذت میں جلنے والے لوگ
کہ خاک ہوگئے خوئے ادب نہیں آئی

جو ابر بن کے برستی ہے روحِ ویراں پر
بہت دنوں سے وہ آوازِ رب نہیں آئی

صدا لگائیں اور اپنا مذاق اُڑوائیں
یہ اہلِ درد پہ اُفتاد کب نہیں آئی

کیا ہے اپنے ہی قدموں نے پائمال بہت 
یہ ہم میں کج کلہی بے سبب نہیں آئی

*******

ہجر کرتے یا کوئی وصل گوارا کرتے 
ہم بہرحال بسر خواب تمھارا کرتے

ایک ایسی بھی گھڑی عشق میں آئی تھی کہ ہم
خاک کو ہاتھ لگاتے تو ستارہ کرتے

اب تو مل جاؤ ہمیں تم کہ تمھاری خاطر
اتنی دُور آگئے دُنیا سے کنارہ کرتے

محوِ آرائشِ رُخ ہے وہ قیامت سرِ بام
آنکھ اگر آئینہ ہوتی تو نظارہ کرتے

ایک چہرے میں تو ممکن نہیں اتنے چہرے
کس سے کرتے جو کوئی عشق دوبارہ کرتے

جب ہے یہ خانۂ دل آپ کی خلوت کے لئے 
پھر کوئی آئے یہاں کیسے گوارا کرتے

کون رکھتا ہے اندھیرے میں دیا، آنکھ میں خواب
تیری جانب ہی ترے لوگ اشارہ کرتے

ظرفِ آئینہ کہاں اور ترا حُسن کہاں
ہم ترے چہرے سے آئینہ سنوارا کرتے


عبید اللہ علیمؔ


یہی چمن ہے تو ایسے چمن سے دور چلیں ۔ شکیل بدایونی

$
0
0

غزل 

برائے نام جہاں دورِ بے سرور چلیں
شکیل کیوں نہ ہم اُس میکدے سے دور چلیں

نہ سمتِ وادئ  ایمن، نہ سوئے طُور چلیں
نگاہ دل پر جمائیں، ترے حُضور چلیں

اس انجمن میں ریاکاریاں ہیں شاملِ عجز
چلو یہاں سے بصد نخوت و غرور چلیں

نسیمِ صبح میں نکہت نہ پھول میں خوشبو
یہی چمن ہے تو ایسے چمن سے دور چلیں

ہمارے سایہ پہ بھی رشک تھا شکیلؔ جنہیں
خدا کی شان! وہ اب ہم سے دُور دُور چلیں

شکیل بدایونی

خواب گاہوں سے نِکلتے ہوئے ڈرتے کیوں ہو ۔ اقبال عظیم

$
0
0
غزل

اپنے مرکز سے اگر دُور نِکل جاؤ گے
خواب ہوجاؤ گے افسانوں میں ڈھل جاؤ گے

اپنے پرچم کا کہیں رنگ بھُلا مت دینا
سُرخ شعلوں سے جو کھیلو گے تو جل جاؤ گے

دے رہے ہیں تمہیں جو لوگ رفاقت کا فریب
اُن کی تاریخ پڑھو گے تو دہل جاؤ گے

اپنی مٹی ہی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگِ مرمر پہ چلو گے تو پھِسل جاؤ گے

خواب گاہوں سے نِکلتے ہوئے ڈرتے کیوں ہو
دھُوپ اتنی تو نہیں ہے کہ پِگھل جاؤ گے

تیز قدموں سے چلو اور تصادُم سے بچو
بھِیڑ میں سُست چلو گے تو کُچل جاؤ گے

ہمسفر ڈھُونڈو نہ رہبر کا سہارا چاہو
ٹھوکریں کھاؤ گے تو خود ہی سنبھل جاؤ گے

تم ہو ایک زِندہ و جاوید رِوایت کے چراغ
تم کوئی شام کا سُورج ہو کہ ڈھل جاؤ گے

صبحِ صادِق مجھے مطلوب ہے میں کس سے کہوں
تم تو بھولے ہو چراغوں سے بہل جاؤ گے

اقبال عظیم

انتخابی اتحاد کی اخلاقی حیثیت

$
0
0

کل ایک انتخابی اشتہار دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ 

کچھ مختلف یوں لگا کہ اشتہار میں صوبائی نشست کا اُمیدوار ایک جماعت سے تھا جبکہ قومی اسمبلی کی نشست کے لئے اُمیدوار دوسری جماعت سے، یعنی یہ اشتہار انتخابی سیاسی اتحاد کا شاخسانہ تھا۔ 

یوں ہی دل میں خیال آیا کہ سیاسی یا انتخابی اتحاد کی اخلاقی حیثیت کیا ہے؟

فرض کیجے ایک شخص جماعت "الف" کو پسند کرتا ہے اور جماعت "ب" کو نا پسند کرتا ہے۔ اب اگر جماعت "الف" اور "ب" آپس میں انتخابی اتحاد کر لیں تو اس شخص کی کیا کیفیت ہوگی اور اُس کا ووٹ کس کے لئے ہوگا؟  یہی بات ایسے شخص کے لئے بھی ہے جس کی پسندیدگی پہلے شخص کے رجحانات کے برعکس ہو۔ 

پھر کیا جماعت "الف" اور جماعت "ب" کا انتخابی منشور ایک ہی ہے؟ یا جماعت "الف" یہ سمجھتی ہے کہ اُس کی طرح سے جماعت "ب" بھی ایک اچھی جماعت ہے اور اس قابل ہے کہ آئندہ حکومت بنا سکے۔  پھر جماعت "الف" کے وجود کا کیا جواز ہے؟ بہتر تو یہ ہے کہ اُسے جماعت "ب" میں ضم ہو جانا چاہیے۔ 

بظاہر دیکھا جائے تو سیاسی اور انتخابی اتحاد صرف اور صرف اس لئے کیے جاتے ہیں کہ کسی تیسرے مخالف کو زیر کیا جا سکے۔ یعنی ہمارے مخالف کا مخالف، ہمارا اتحادی۔ اور اس طرح کے اتحاد میں نظریات کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ یعنی وہی غلط روایت جو قبائلی معاشروں میں رہی ہے کہ "دشمن کا دشمن، ہمارا دوست"!

اس تمام پس منظر میں دیکھا جائے تو سیاسی اور انتخابی اتحاد کی اخلاقی حیثیت کیا رہ جاتی ہے۔ کیا کسی جماعت کے ووٹر کو اس بات کا حق نہیں کہ وہ پوچھ سکے کہ تم نے فلاں جماعت سے اتحاد کیوں کیا؟

اس بار ووٹ کسے دیا جائیے ؟؟؟

$
0
0

کل ملک میں عام انتخابات ہونے جا ر ہے ہیں۔ اور ہر ذہن میں یہ سوال ضرور اُٹھتا ہے کہ اپنا قیمتی ووٹ کسے دیا جائے؟ 

میری رائے صرف یہ کہ ووٹ نظریاتی بنیاد پر دیں، نہ کہ لسانی، علاقائی یا صوبائی بنیاد پر۔ ووٹ اپنے "عزیزوں" کو نہ دیں بلکہ اُنہیں دیں جنہیں پاکستان "عزیز" ہو ۔ 

ووٹ ایسے لوگوں کو نہ دیں جن سے مستقل میں کوئی کام نکلنے کی اُمید ہو بلکہ ووٹ ایسے لوگوں کو دیں جو مستقبل میں ایسا نظام لائیں کہ جس کی مدد سے سب کے سب (جائز ) کام سہل ہو جائیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ووٹ ایسے لوگوں کو دیں جو پاکستانیوں کو آپس میں متحد کریں نہ کہ متنفر کریں۔

ووٹ صرف سچے کھرے اُمیدوار یا جماعت کو دیجے اور تمام تر مصلحتیں بالائے طاق رکھ دیجے۔ ملک کے وسیع تر مفاد کے لئے چھوٹی چھوٹی وابستگیوں اور مفاد کو پسِ پشت ڈال دیجے۔ اگر آج آپ نے پاکستان کو صحیح رُخ پر ڈال دیا تو کل ان شاءاللہ آپ کا ہوگا۔  سوچ سمجھ کر ووٹ دیجے کہیں کل پچھتانا پڑے۔ 

لَو دیے کی نگاہ میں رکھنا ۔ رسا چغتائی

$
0
0
شہرِ کراچی کے صاحب ِ طرز شاعر رسا چغتائی کی دو غزلیں آپ کے ذوق کی نظر کی جارہی ہیں۔  رسا کے شعری مجموعوں میں"تیرے آنے کا انتظار رہا" سب سے آخر میں شائع ہوئی  ہے جبکہ اس سے پہلے ان کے چار شعری مجموعے ریختہ، زنجیرِ ہمسائیگی، تصنیف اور چشمہ ٹھنڈے پانی کا کے نام سے آ چکے ہیں۔ 

رسا چغتائی کا مختصر سا تعارف محترم  قمر جمیل کی زبانی بھی  نذرِ قارئین کیا جا رہا ہے۔  

رسا چغتائی سید ابو العلا ابولعلائی  سلسلے کے ایک بزرگ عارفی سے بیت ہے۔ والد کا نام مرزا محمود علی بیگ  اور خود اُس کا نام مرزا محتشم علی بیگ ہے۔ یگانہ کی طرح یہ بھی چنگیزی ہے۔ مگر لہجہ میں کڑوا پن نہیں ۔ سوائی ۔ مادھوپور کا رہنے والا یہ شخص ۔ چاروں طرف پہاڑ اور بیچ میں اس کا قصبہ تھا۔ آج بھی  اس کے چاروں طرف پہاڑ ہیں اور بیچ میں اس کا قصبہ ہے۔ اس کی شاعری قصبے سے طلوع ہونے والے  غمزدہ چاند کی طرح ہے جس کے سامنے ایک بیکراں رات ہے۔ شاعرانہ علم کی بیکراں رات! جس میں اس کے دکھوں کے داغ چاند کے داغوں کی طرح چمکتے ہیں اور چمکتے ہیں نہیں ، ہمارے آس پاس گھومنے لگتے ہیں! اور اندھیروں میں شاعری کی نئی روشنی جنم لیتی ہے۔ شاعری کی نئی روشنی رسا چغتائی کے چہرے پر بھی پڑ رہی ہے۔ 

 پہلی غزل

کیسے کیسے خواب دیکھے، دربدر کیسے ہوئے
کیا بتائیں روز و شب اپنے بسر کیسے ہوئے

نیند کب آنکھوں میں آئی، کب ہوا ایسی چلی
سائباں کیسے اُڑے، ویراں نگر کیسے ہوئے

کیا کہیں وہ زُلفِ سرکش کس طرح ہم پر کھلی
ہم طرف دار ہوائے راہگُزر کیسے ہوئے

حادثے ہوتے ہی رہتے ہیں مگر یہ حادثے
اک ذرا سی زندگی میں، اس قدر کیسے ہوئے

ایک تھی منزل ہماری، ایک تھی راہِ سفر
چلتے چلتے تم اُدھر، اور ہم اِدھر کیسے ہوئے

**** 

دوسری غزل

خواب اُس کے ہیں جو چُرا لے جائے
نیند اُس کی ہے جو اُڑا لے جائے

زُلف اُس کی ہے جو اُسے چھولے
بات اُس کی ہے جو بنا لے جائے

تیغ اُس کی ہے شاخِ گُل اُس کی
جو اُسے کھینچتا ہوا لے جائے

یوں تو اُس پاس کیا نہیں پھر بھی
ایک درویش کی دعا لے جائے

زخم ہو تو کوئی دہائی دے
تیر ہو تو کوئی اُٹھا لے جائے

قرض ہو تو کوئی ادا کردے
ہاتھ ہو تو کوئی چُھڑا لے جائے

لَو دیے کی نگاہ میں رکھنا
جانے کس سمت راستہ لے جائے

دل میں آباد ہیں جو صدیوں سے
ان بُتوں کو کہاں خدا لے جائے

خواب ایسا کہ دیکھتے رہیے
یاد ایسی کہ حافظہ لے جائے

میں غریب الدّیار، میرا کیا
موج لے جائے یا ہَوا لے جائے

خاک ہونا ہی جب مقدّر ہے
اب جہاں بختِ نارسا لے جائے

**** 

وا میرے وطن ۔۔۔ ترجمہ ۔۔۔۔ از فیض احمد فیض

$
0
0

وا  میرے وطن 

ترجمہ از فیض احمد فیض


او میرے وطن! او میرے وطن! او میرے وطن!
مرے سر پر وہ ٹوپی نہ رہی 
جو تیرے دیس سے لایا تھا
پاؤں میں وہ اب جوتے بھی نہیں
واقف تھے جو تری راہوں سے
مرا آخری کُرتا چاک ہُوا 
ترے شہر میں جو سلوایا تھا
اب تیری جھلک 
بس اُڑتی ہوئی رنگت ہے میرے بالوں کی
یا جُھریّاں مرے ماتھے پر 
یا میرا ٹوٹا ہُوا دل ہے 
وا میرے وطن ! وا میرے وطن ! وا میرے وطن

شامِ شہرِ یاراں سے انتخاب

غزل ۔ خاک اُڑتی ہے اس جہان میں کیا ۔ رسا چغتائی

$
0
0
غزل

خاک اُڑتی ہے اس جہان میں کیا
پھول کھلتے ہیں آسمان میں کیا

عشق تیرے خیال میں کیا ہے
زندگی ہے ترے گُمان میں کیا

میں جو حیرت زدہ سا رہتا ہوں
بات آتی ہے تیرے دھیان میں کیا

نیند آرام کر رہی ہے ابھی
تیری پلکوں کے سائبان میں کیا

کیا ہوئے وہ شکست خوردہ لوگ
آگئے سب تری امان میں کیا

تجھ سے یہ تیرے حاشیہ بردار
اور کہتے بھی میری شان میں کیا

پوچھتا ہے مکاں کا سناٹا
میں ہی رہتا ہوں اس مکان میں کیا

ہم ہیں خود آپ رو برو اپنے
اور ہیں خود ہی درمیان میں کیا

وہ جو کھڑکی کھلی سی رہتی ہے
جھانکتی ہے مرے مکان میں کیا

حال اپنا بھی کیا یہی ہو گا
ذکر آئے گا داستان میں کیا

جب کیے دُکھ بیاں اُسی سے کیے
بات ایسی ہے اس چٹان میں کیا

اچھے لگتے ہیں آن بان کے لوگ
جانے ہوتا ہے آن بان میں کیا

دل سے جب دل کلام کرتا ہے
لفظ آتے ہیں درمیان میں کیا

کیا ہوئے میرے خاندان کے لوگ
ایک میں ہی تھا خاندان میں کیا

جمع کیجے نہ درد و غم تو رساؔ
کیجیے اور اس جہان میں کیا

رساؔ چغتائی
Viewing all 347 articles
Browse latest View live