Quantcast
Channel: رعنائیِ خیال
Viewing all 347 articles
Browse latest View live

سیلف میڈ لوگوں کا المیہ

$
0
0
سیلف میڈ لوگوں کا المیہ

روشنی مزاجوں کا کیا عجب مقدر ہے
زندگی کے رستے میں ۔ ۔ بچھنے والے کانٹوں کو 
راہ سے ہٹانے میں 
ایک ایک تنکے سے آشیاں بنانے میں 
خوشبوئیں پکڑنے میں ۔ ۔ گلستاں سجانے میں 
عمر کاٹ دیتے ہیں 
عمر کاٹ دیتے ہیں 
اور اپنے حصے کے پھول بانٹ دیتے ہیں 
کیسی کیسی خواہش کو قتل کرتے جاتے ہیں 
درگزر کے گلشن میں ابر بن کے رہتے ہیں 
صبر کے سمندر میں ۔ ۔ کشتیاں چلاتے ہیں 

یہ نہیں کہ ان کو اس روز و شب کی کاہش کا 
کچھ صلہ نہیں ملتا 
مرنے والی آسوں کا ۔ ۔ خون بہا نہیں ملتا 

زندگی کے دامن میں ۔ ۔ جس قدر بھی خوشیاں ہیں 
سب ہی ہاتھ آتی ہیں 
سب ہی مل بھی جاتی ہیں 
وقت پر نہیں ملتیں ۔ ۔ وقت پر نہیں آتیں 

یعنی ان کو محنت کا اجر مل تو جاتا ھے 
لیکن اس طرح جیسے 
قرض کی رقم کوئی قسط قسط ہو جائے 
اصل جو عبارت ہو ۔ ۔ پسِ نوشت ہو جائے 

فصلِ گُل کے آخر میں پھول ان کے کھلتے ہیں 
ان کے صحن میں سورج  دیر سے نکلتے ہیں

امجد اسلام امجد


اپنی فضا سے اپنے زمانوں سے کٹ گیا ۔ اُمید فاضلی

$
0
0
غزل

اپنی فضا سے اپنے زمانوں سے کٹ گیا
پتھر خدا بنا تو چٹانوں سے کٹ گیا

پھینکا تھکن نے جال تو کیوں کر کٹے گی رات
دن تو بلندیوں میں اُڑانوں سے کٹ گیا

وہ سر کہ جس میں عشق کا سودا تھا کل تلک
اب سوچتا ہوں کیا مرے شانوں سے کٹ گیا

پھرتے ہیں پَھن اُٹھائے ہُوئے اب ہوس کے ناگ
شاید زمیں کا ربط خزانوں سے کٹ گیا

ڈوبا ہُوا ملا ہے مکینوں کے خون سے 
وہ راستہ جو اپنے مکانوں سے کٹ گیا

مل کر جدا ہوا تھا کوئی اور  اُس کے بعد
ہر ایک لمحہ اپنے زمانوں سے کٹ گیا

اُمید فاضلی

شہریاروں کے غضب سے نہیں ڈرتے یارو ۔ نور بجنوری

$
0
0
غزل

شہریاروں کے غضب سے نہیں ڈرتے یارو
ہم اصولوں کی تجارت نہیں کرتے یارو

خونِ حسرت ہی سہی، خونِ تمنّا ہی سہی
ان خرابوں میں کوئی رنگ تو بھرتے یارو

پھر تو ہر خاک نشیں عرشِ بریں پر ہوتا
صرف آہوں سے مقدر جو سنورتے یارو

سولیاں جُھوم کے ہوتی ہیں ہم آغوش جہاں
کاش ہم بھی اُنہی راہوں سے گُزرتے یارو

سر کہیں، سر پہ سجائی ہوئی دستار کہیں
زندگی کے لئے یوں بھی نہیں مرتے یارو

چاند تسخیر کیا، قلب نہ تسخیر کیا
اس  جزیرے میں بھی اک بار اُترتے یارو

نور بجنوری

انسان اور وقت

$
0
0
انسان اور وقت کا ساتھ بہت پُرانا ہے ۔ ایک دور تھا کہ وہ سور ج اور ستاروں کی چال دیکھ کر وقت کا اندازہ لگایا کرتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب وقت انسان کے ساتھ تھا لیکن شناشائی ابھی ابتدائی مراحل میں ہی تھی ۔ آج بھی انسان کبھی وقت کے ساتھ ہوتا ہے تو کبھی وقت کے ساتھ ساتھ چلنے کی کوشش میں ہوتا ہے۔ کبھی تیز دوڑ کر آگے نکلنے کی کوشش کرتا ہے اور منہ کے بل گر پڑتا ہے۔ 

ہزارہا سال کے تجربے اور ساتھ کے باوجود انسان ابھی بھی وقت سے بہت پیچھے ہے۔ وہ لاکھ خود کو طرم خان سمجھنے لگے لیکن وقت ہمیشہ اُس کے اندازوں کو غلط ثابت کردیتا ہے اور اُسے بتاتا ہے کہ ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ۔۔۔ ۔ 

سوال یہ ہے کہ انسان وقت سے اس قدر اُلجھتا کیوں ہے۔ جواب یہ ہے کہ یہ انسان کے لئے زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ زندگی اور موت ۔۔۔ ؟ ہاں ! کیا زندگی وقت کے سوا بھی کچھ ہے؟ پھر وہ وقت سے کیوں نہ اُلجھے ۔ زندگی ایک مہلت ہی تو ہے ۔ پیدائش سے لے کر موت تک کی مہلت۔ شاید اسی لئے انسان وقت سے ہمہ وقت برسرِ پیکار رہتا ہے۔ اکثر شاکی رہتا ہے اور کبھی کبھی تو اپنی کوتاہیوں کے لئے بھی وقت ہی کو قصوروار ٹہھراتا ہے۔ 

وقت کی پیمائش بھی ہمیشہ انسان کے لئے ایک مسئلہ ہی رہی ہے سورج اور ستاروں کی چال سے لے کر فراقِ یار کی طوالت اور وصل کی مختصر گھڑیاں۔ غرض وقت کو ناپنے کے سب پیمانے ایک وقت تک ہی انسان کا ساتھ دیتے ہیں اور پھر انسان سوچتا ہے کہ پلوں کے نیچے سے جتنا پانی بہہ گیا، وقت کے لئے بنائے گئے اُس کے پیمانے اُس کا ادراک ہی نہیں کر سکے۔ 

ڈھلتی عمر بھی انسان کو وقت کے گزرنے سے آگاہ کرتی ہے۔ کسی دن اچانک ہی کسی کا چھوٹا سافقرہ یا آئنے کی بے تکلفی اُسے چونکا دیتی ہے۔ جیسے وہ برسوں کی نیند سے بیدار ہوا ہو۔ وہ سوچتا ہے کہ وقت کی اُنگلی پکڑے وہ کہاں سے کہاں تک آگیا ہے ۔ یہاں تک کہ پیچھے مُڑ کر دیکھنے پر اُسے اپنا نقطہء آغاز تک نظر نہیں آتا۔ اُسے لگتا ہے جیسے وقت ریت کی طرح اُس کی مُٹھی سے پھسل گیا ہو۔ وقت کا ریت کی طرح ہتھیلی سے پھسل جانا بھی کیا ہی خوب تمثیل ہے ۔ شاید پہلی بار جب انسان کو یہ تشبیہہ سوجھی ہو گی تو اُسے ریت گھڑی بنانے کا خیال آیا ہوگا۔ 

آپ نے ریت گھڑی اور کہیں نہیں تو کمپیوٹر میں انتظار کی علامت کے طور پر ضرور دیکھی ہوگی۔ ریت گھڑی سے مستقل ریت کے ذرے زوال پذیر نظر آتے ہیں یہاں تک کہ وقت کی جھولی کے سب سکّے نذرِ خاک ہوجاتے ہیں۔ ریت گھڑی تو پلٹ کر پھر سے کام پر لگادی جاتی ہے لیکن انسان کی زندگی ریگِ صحرا کی ایک مُٹھی سے زیادہ نہیں معلوم ہوتی۔ 

آج کا دور ڈجیٹل گھڑیوں سے بھی آگے کا ہے ، آج ہم ایک ثانیے کے بھی ہزار ویں حصے کی پیمائش باآسانی کر سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کے احساس ڈجیٹل نہیں ہوسکا ۔ احساس اب بھی وہی ہے ۔ اب بھی انسان کبھی وقت کو قید کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کبھی اُس کی کوشش ہوتی ہے کہ خود کو وقت کی قید سے آزاد کرالے۔ فراق کی گھڑیاں کاٹے نہیں کٹتیں اور وصل میں وہ بے اختیار کہہ اُٹھتا ہے:

تجھ سے ملتا ہوں تو اس سوچ میں پڑ جاتا ہوں
وقت کے پاؤں میں زنجیر میں ڈالوں کیسے​

اکثر لوگ کہتے ہیں کہ وقت از خودمختصر یا طویل نہیں ہوتا بلکہ انسان کا احساس اُسے درازی یا تنگی کی خلعت عطا کرتا ہے۔ کمرہء امتحان کے تین گھنٹے اور انتظار کے تیس منٹ کو اگر میزانِ احساس میں رکھا جائے تو شاید کوئی بھی پلڑا ہار ماننے کو تیار نہ ہو۔ 

یہ بھی سنتے ہیں کہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا ۔ دیکھا جائے تو یہ بات بھی خوب ہے کہ خوشی کی گھڑیوں میں انسان کو مغرور نہیں ہونے دیتی اور مشکل میں مایوسی سے بچا لیتی ہے۔ یعنی انسان کے برتاؤ کو اعتدال کے سکون بخش مستقر میں لا کھڑا کرتی ہے۔ اس بات سے مشکل میں حوصلہ ملتا ہے اور اُمید کی لو فروزاں ہو جاتی ہے کہ کبھی تو وقت موافق بھی ہوگا۔ وقت کبھی انسان کے موافق ہوتا ہے تو کبھی مخالف اور ہر دو صورتوں میں یہ انسان کو بہت کچھ سکھاتا ہے اور جو بات وقت انسان کو سکھاتا ہےاُسے بھولنا ممکن نہیں ہوتا۔ 

ہمارے ہاں وقت کا لفظ بہت ہی وسیع معنوں میں مستعمل ہے۔ یہ کبھی محض ایک ساعت کے لئے استعمال ہوتا ہے تو کبھی یہ ایک عہد کا استعارہ بن جاتا ہے۔ وقتِ رخصت، وصل کی ساعت، ہجر کی گھڑیاں، رنج کا موسم اور گلابوں والی رُت سب کے سب وقت کے ہی بہروپ ہیں ۔ اچھا وقت یوں کٹ جاتا ہے کہ پتہ بھی نہیں چلتا۔ بقول پروین شاکر:

ابھی ابھی وہ ملا تھا ہزار باتیں کیں
ابھی ابھی وہ گیا ہے مگر زمانہ ہوا
اور اگر زندگی رنج و محن کی تصویر ہو جائے تو شاعر کہہ اُٹھتا ہے:

جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
جو لوگ وقت کے ساتھ چلنا سیکھ لیتے ہیں وہ مستقل خود کو بدلتے رہتے ہیں لیکن وقت رُکنا نہیں جانتا اور اکثر انسان وقت کے تعاقب میں ہانپ جاتا ہے۔ بقول امجد اسلام امجد "وقت سے کون کہے یار ذرا آہستہ۔۔۔ !" 

وقت انسان کے ساتھ جو بھی کرے لیکن انسان کو ہمیشہ یہی سبق دیا جاتا ہے کہ وہ وقت کی قدر کرے اور وقت کے دامن میں کارہائے مثبت و مفید کے پھول کشید کرتا رہے ، یقیناً ایک نہ ایک دن منظر اور پس منظر دونوں رنگ و بو سے معمور ہو جائیں گے۔ 

سب سے آخری بات یہ کہ وقت بڑی ظالم شے ہے اور وہ ایسے کہ اگر آپ خود وقت کے قصیدے بھی پڑھتے رہیں تب بھی یہ اپنی روش سے باز نہ آئے گا اور پُھر سے اُڑ جائے گا اور آپ کو کفِ افسوس ملنے کے مزید وقت درکار ہوگا۔ سو اس گفتگو کو یہیں سمیٹتے ہوئے آخر میں کچھ منتخب اشعار کہ جن میں وقت اور انسانی احساسات کو خوبصورتی سے بُنا گیا ہے۔ 

ایک غزل کے کچھ اشعار :

وقت سے وقت کی کیا شکایت کریں، وقت ہی نہ رہا وقت کی بات ہے
اُس نے دیکھا مجھے، اُس نے چاہا مجھے، اُس نے ٹھکرا دیا، وقت کی بات ہے

کوئی مشکل پڑی، کوئی کام آگیا، ذہن میں اُس کے جو میرا نام آگیا
بعد مدّت کے وہ دوستوں کی طرح ہم سے ہنس کر ملا وقت کی بات ہے

زندگی ہم سے انجان تو ہو گئی، ایک رشتے کی پہچان تو ہو گئی
کوئی چاہت نہ تھی بس مروّت تھی وہ، خود کو سمجھا لیا وقت کی بات ہے​

کچھ اشعار ایک اور غزل سے:

جسم کی بات نہیں تھی ان کے دل تک جانا تھا
لمبی دوری طے کرنے میں وقت تو لگتا ہے

ہم نے علاج زخم دل تو ڈھونڈ لیا لیکن
گہرے زخموں کو بھرنے میں وقت تو لگتا ہے

گانٹھ اگر لگ جائے تو پھر رشتے ہوں یا ڈوری
لاکھ کریں کوشش کھولنے میں وقت تو لگتا ہے
کچھ اشعار فرحت عباس شاہ کے:

آگ ہو تو جلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
برف کے پگھلنے میں‌ دیر کتنی لگتی ہے

چاہے کوئی رک جائے، چاہے کوئی رہ جائے
قافلوں کو چلنے میں دیر کتنی لگتی ہے

چاہے کوئی جیسا بھی ہمسفر ہو صدیوں سے
راستہ بدلنے میں دیر کتنی لگتی ہے​

کچھ نوشی گیلانی کے:

کُچھ بھی کر گزرنے میں دیر کتنی لگتی ہے
برف کے پگھلنے میں دیر کتنی لگتی ہے

اُس نے ہنس کر دیکھا تو مُسکرادیے ہم بھی
ذات سے نکلنے میں دیر کِتنی لگتی ہے​

جون ایلیا:

آدمی وقت پر گیا ہوگا
وقت پہلے گزر گیا ہوگا

ابنِ انشاء:

ساعتِ چند کے مسافر ہیں 
کوئی دم اور گفتگو لوگو! ​

اور بھی بہت سے ہیں لیکن کسی اور "وقت"۔ 

ادا جعفری کی دو خوبصورت غزلیں

$
0
0
ادا جعفری کی دو خوبصورت غزلیں

گھر کا رستہ بھی ملا تھا شاید
راہ میں سنگِ وفا تھا شاید

اِک ہتھیلی پہ دیا ہے اب تک
ایک سورج نہ بجھا تھا شاید

اس قدر تیز ہوا کے جھونکے
شاخ پر پھول کِھلا تھا شاید

لوگ بے مہر نہ ہوتے ہوں گے
وہم سا دل کو ہُوا تھا شاید

خونِ دل میں تو ڈبویا تھا قلم
اور پھر کچھ نہ لکھا تھا شاید

تجھ کو بُھولے تو دعا تک بُھولے
اور وہی وقتِ دعا تھا شاید

موجہ ٴ رنگ بیاباں سے چلا
یا کوئی آبلہ پا تھا شاید

رُت کا ہر آن بدلتا لہجہ
ہم سے کچھ پوچھ رہا تھا شاید

کیوں ادا ؔ کوئی گریزاں لمحہ 
شعر سننے کو رُکا تھا شاید


******

حال کُھلتا نہیں جبینوں سے
رنج اُٹھائے ہیں کن قرینوں سے

رات آہستہ گام اُتری ہے
درد کے ماہتاب زینوں سے

ہم نے سوچا نہ اُس نے جانا ہے
دل بھی ہوتے ہیں آبگینوں سے

کون لے گا شرارِ جاں کا حساب
دشتِ امروز کے دفینوں سے

تو نے مژگاں اُٹھا کے دیکھا بھی
شہر خالی نہ تھا مکینوں سے

آشنا آشنا پیام آئے
اجنبی اجنبی زمینوں سے

جی  کو آرام آ گیا ہے  اداؔ
کبھی طوفاں، کبھی سفینوں سے

اداؔ جعفری

اھے وائے ۔۔۔۔ رشید احمد صدیقی

$
0
0
اھے وائے 
رشید احمد صدیقیکی تحریر "پاسبان"سے اقتباس

سفر شروع ہوا راستے میں ایک درگاہ پڑتی تھی زیارت کے لئے اُتر پڑا ۔ اسباب سرائے میں رکھ کر درگاہ پہنچا۔ جو توقعات بن دیکھے قائم کی تھیں ان میں مایوسی ہوئی اور  وہاں کے پاسبانوں کو دیکھ کر جان و مال کا اتنا نہیں تو آبرو جانے کا اندیشہ ضرور ہوا۔  لمبی چوڑی عمارت ،گندگی، گداگر،  تنو مند ترش رو مجاور ہر طرف کہنگی اور زوال کے آثار۔ سمجھ میں نہ آیا کیا کروں۔ خیال آیا  قوالی سے کام لوں لیکن اشعار یاد نہ گانے سے واقفیت۔ تالی بجانے کی مشق کالج میں کی تھی لیکن کالج کی تالی اور مزار کی تالی میں بڑا فرق تھا اور اس فرق کو خادموں اور مجاورں نے محسوس کر لیا تو یہاں کوئی ایسا تو ہے نہیں جو اس کا قائل ہو کہ تالی دونوں ہاتھ سے بج سکتی ہے ممکن ہے تالی کا پرچہ ترکیب استعمال کچھ اور ہی ہو مثلاً  ایک ہی ہاتھ سے بجائی جاتی ہو خیال آیا کہ گو اشعار تالی اور قوالی وغیرہ کچھ نہیں آتی لیکن قوالی کی  ایک چیز آتی ہے۔ یعنی  "اھے وائے!" 


چنانچہ کچھ سوچتا کچھ گنگناتا بہت کچھ ڈرتا ہوا داخلِ عمارت ہوا۔ پاسبان نے ایسی پاٹ دار آواز میں للکارا کہ ساری عمارت گونج گئی اور میں ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ "قدم درویشان ردِّ بلا" ۔ پھر نہایت لجاجت سے فیس داخلہ طلب کی۔ بات سمجھ میں نہ آئی اس لئے کہ میرے قدم ردِّ بلا تھے تو اس کی فیس کیسی اور کسی دوسرے کے تھے تو اس کا اعلان مجھے دیکھ کر کیوں !  پھر سوچنے لگا کہ ممکن ہے شکل کے اعتبار سے میں درویش ہوں قدم کے اعتبار سے یہ لوگ یا کوئی اور بزرگ ردِّ بلا ہوں۔ عرض کیا جناب پیسے ہوتے تو وطن ہی کیوں چھوڑتا۔ اس اُمید پر حاضر ہوا ہوں کہ حضرت کے فیض سے کچھ پیسے مل جائیں گے۔

فرمایا آپ بڑے آدمی ہیں اللہ نے بہت کچھ دیا ہے، عرض کیا یہ آپ کا حسنِ ظن ہے لیکن رائے صحیح نہیں قائم فرمائی۔ میں مفلس عیال دار ہوں اُسی اعتبار سے مقروض اور مریض بھی۔ کہنے لگے بجا ۔ لیکن جب تک کچھ خیر خیرات نہ کیجے گا حضرت کی خوشنودی کیوں کر حاصل ہوگی۔  کیا خوب سودا نقد ہے اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے۔ دبی  زبان سے عرض کی جناب یہ مزار شریف ہے یا امپیریل بنک! پاسبان نے کچھ اس طرح گھور کر دیکھا کہ مارے خوف کے دل سینے میں اور چونی جیب میں لرزنے لگی۔ چوّنی دربان کی خدمت میں پیش کی اور اھے وائے کہتا ہوا چار سورماؤں کی حفاظت یا حراست میں آگے بڑھا۔ ایک مقام پرطائفہ  کھڑا ہو گیا۔ حکم ہوا حضرت نے یہاں وضو کیا تھ۔ اکنّی رکھ دو ۔ اکنّی کے ساتھ ایک بزرگ بھی تخفیف میں آگئے۔ دوسری منزل پر بتایا گیا کہ حضرت نے یہاں چلّہ کھینچا تھا آٹھ آنے نذر کے پیش کرو۔ وہ بھی پیش کر دیئے ، ایک صاحب اور کم ہو ئے۔ ایک اور مقام پر پہنچے ارشاد ہوا  بارہ آنے رکھ دو حضور نے یہاں دعا مانگی تھی۔  تم بھی دعا مانگ لو۔  پوچھا کیا آپ بتاسکتے ہیں حضور نے کیا دعا مانگی تھی کہنے لگے یہی مانگی ہوگی کہ خدا مسلمانوں کو جملہ آفات و بلیّآت  سےمحفوظ رکھے۔ میں نے کہا اہے وائے، وہ دعا کب مقبول ہوئی کہ میں بھی مانگوں۔ اس پر دوست بہت برہم ہوئے اور کچھ تعجب نہ ہوتا اگر نقصِ  امن کی نوبت آجاتی ۔ میں نے مطلوبہ رقم ان کے ہاتھ پر رکھ دی جس کا کرشمہ یہ تھا کہ اُن کا ولولہ ِجہاد مزاج شریف اور دعائے لطیف پر ختم ہوگیا۔ 

پوچھنے لگے حضرت کا آنا کہاں سے ہوا۔ عرض کیا ٹمبکٹو سے۔  فرمایا وہاں مزارات ہیں ؟ کہاں جہاں کہیں مسلمان ہوں گے مزارات بھی ہوں گے۔ پوچھا متولی اور سجادہ نشین کون ہیں۔ کہاں فی الحال تو یہ خاکسار ہی ہے اور اس وقت مزارات کے مسائل پر تحقیقات کرنے ہندوستان آیا ہے۔ پوچھا اوقاف کی آمدنی کیسی ہے ۔ جواب دیا کافی سے زائد ہے۔ کہنے لگے اگر میری خدمات کی ضرورت ہو تو حاضر ہوں، یہاں حالات تو نہایت زار ہے۔  متولی صاحب پر ایک عورت اور ایک انگریز کا بڑا اثر ہے۔ مزار شریف کی ساری آمدنی انہی پر صرف ہوتی ہے۔ ہم خدام تو بس اُسی روکھی پھیکی پر بسر کرتے ہیں جو آپ لوگوں سے مل جاتی ہے۔ عرض کیا، کیا کیجے گا  انگریز  اور  عورت سے کسے اور کہاں مفر ہے۔ 

ایک دوسرے خادم کے ہمراہ آگے بڑھا اور ایک کھڑکی کے قریب پہنچا ساتھی نے کہا ایک روپیہ نذر کیجے اور کھڑکی میں منہ ڈال کر دعا مانگئے قبول ہوگی۔  عرض کیا یہ ایک روپیہ حاضر ہے۔ دعا مانگنے کی ضرورت نہیں سمجھتا ۔ کہنے لگے نہیں جناب یہ یہاں کا دستور ہے آپ مزار شریف کی توہین کرتے ہیں۔ میں نے کہا یہ بات نہیں ہے حواس پر قابو نہیں الٹی سیدھی دعا مانگ گیا تو کیا ہوگا۔ کہنے لگے دعا مانگنی پڑے گی۔ اس آستانے سے کوئی محروم نہیں گیا۔ مجبوراً کھڑکی  میں منہ ڈال کر کھڑا ہوگیا۔ رفیق نے للکارا دعا  مانگو اور ہم سے کیا پردہ باآوازِ بلند مانگو۔ عرض کیا اس سے ممکن ہے صاحبِ مزار کے آرام میں خلل پڑے گا ۔ فرمایا اس کا خیال نہ کرو۔ ہم سنبھال لیں گے۔ میں نے دعا مانگی۔  "اے برگزیدہ روح دعا فرمائیں کہ اس گنہگار اور بدبخت کو آج سے پھر کسی مزار یا مجاور سے سابقہ نہ پڑے۔"

یاد نہیں آتا کہ کھڑکی کے اندر سے خود گردن باہر نکالی یا اس کے لئے اپنے رفیق کا احسان مند ہونا پڑا۔ اہے وائے کرتا مزار شریف سے تنہا باہر آیا۔ بعض فقرا اور مساکین نے ہمدردی کرنا چاہیے لیکن آخری کرم فرما نے وہیں سے للکارا "خبردار وہابی ہے!"سرائے پہنچا تو سامان غائب۔  اہے وائے۔

مِٹ گیا خواب آنکھ ملتے ہی - منیر نیازی

$
0
0
غزل 

آگئی یاد شام ڈھلتے ہی
بجھ گیا دل چراغ جلتے ہی

کُھل گئے شہرِ غم کے دروازے
اک ذرا سی ہوا کے چلتے ہی

کون تھا تُو کہ پھر نہ دیکھا تُجھے
مِٹ گیا خواب آنکھ ملتے ہی

خوف آتا ہے اپنے ہی گھر سے
ماہِ شب تاب کے نکلتے ہی

تُو بھی جیسے بدل سا جاتا ہے
عکسِ دیوار کے بدلتے ہی

خون سا لگ گیا ہے ہاتھوں میں
چڑھ گیا زہر گل مسلتے ہی

منیر نیازی

ماہِ منیر سے انتخاب

لیاقت علی عاصم کی دو خوبصورت غزلیں

$
0
0
لیاقت علی عاصم کی دو خوبصورت غزلیں

اب کِسے معلُوم کیا کیا جل گیا
ایک  گھر تھا ٹُوٹا پُھوٹا جل گیا

گھر کی دیواریں ہیں آئنہ بدست
خوبرُو لڑکی کا چہرہ جل گیا

شہر والوں نے کبھی پُوچھا نہیں
جل گئی کشتی کہ دریا جل گیا

حسرتیں مُرجھا گئیں اِس بار بھی
آتشِ گُل سے دریچہ جل گیا

اُس طرف کی بھی خبر لیجے کبھی
ابر بتلاتے ہیں صحرا جل گیا

آتشِ نا دیدہ ہے یہ ہجر بھی
یُوں بُجھا یہ دل کہ گویا جل گیا

کشتیوں میں آگ لے آئے تھے ہم
اِس لئے عاصمؔ جزیرہ جل گیا 


******

کشتِ اُمّید بارور نہ ہُوئی
لاکھ سورج اُگے سحر نہ ہُوئی

ہم مُسافر تھے دھوپ کے ہم سے
ناز برداریِ شجر نہ ہُوئی

مُجھ کو افسوس ہے کہ تیری طرف 
سب نے دیکھا مِری نظر نہ ہُوئی

گھر کی تقسیم کے سِوا  اب تک 
کوئی تقریب میرے گھر نہ ہُوئی

نام میرا تو تھا سرِ فہرست 
اتفاقاً مجھے خبر نہ ہُوئی

جانے کیا اپنا حال کر لیتا
خیر گُزری اُسے خبر نہ ہُوئی

لیاقت علی عاصم 

دلِ من مُسافرِ من

$
0
0
دلِ من مُسافرِ من

مرے دل، مرے مُسافر
ہوا پھر سے حکم صادر
کہ وطن بدر ہوں ہم تم
دیں گلی گلی صدائیں
کریں رُخ نگر نگر کا
کہ سُراغ کوئی پائیں
کسی یارِ نامہ بَر کا
ہر اک اجنبی سے پوچھیں
جو پتہ تھا اپنے گھر کا
سرِ کوئے ناشنایاں
ہمیں دن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا
کبھی اُس سے بات کرنا
تمھیں کیا کہوں کہ کیا ہے
شبِ غم بُری بَلا ہے
ہمیں یہ بھی تھا غنیمت 
جو کوئی شمار ہوتا
ہمیں کیا بُرا تھا مرنا
اگر ایک بار ہوتا

فیض احمد فیضؔ

عبید الرحمٰن عبیدؔ کی دو خوبصورت غزلیں

$
0
0
عبید الرحمٰن عبیدؔ کی دو خوبصورت غزلیں

عبید الرحمٰن عبیدؔ بہت اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ میرے بہت ہی عزیز بھائی بھی ہیں اور میرے شفیق اُستاد بھی ۔ اگر آج میں کچھ ٹوٹے پھوٹے شعر نظم کر لیتا ہوں تو اس کے پیچھے اُنہی کا ہاتھ ہے۔ سچ پوچھیے تو شاعری کی الف ب سے واقفیت مجھے عبید بھائی نے ہی کروائی اور فن ِ شاعری کے رموز اورباریکیوں کو سمجھنے میری ہر ممکن رہنمائی کی۔

شاعری کے علاوہ خاکسار ایک عرصے اُن کے ساتھ مقیم رہا اور اس دوران اُن سے جو شفقت اور محبت  میسر آئی وہ میری زندگی میں کسی نعمت سے کم نہیں ہے اور اگر میں چاہوں بھی تو اُن کی محبتوں کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا۔

عبید الرحمٰن عبیدؔ کا شعری مجموعہ "جب زرد ہو موسم اندر کا"کے عنوان سے  شائع ہوا۔ جس میں موصوف کی شاعری اور مصوری کے کمالات جا بجا دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کتاب کا عنوان اس شعر سے اخذ کیا گیا ہے:

جب خواب ہی ساری جھوٹے ہوں ، اور برگِ تمنّا سوکھے ہوں
جب زرد ہو موسم اندر کا ، کیا پھول کھلائیں چہرے پر



منتخب کلام کے سلسلے میں آج محترم عبید الرحمٰن عبیدؔ صاحب کی دو خوبصورت غزلوں کے ساتھ حاضر ہوا ہوں۔ ملاحظہ فرمائیے۔

غزل

اک تھکا ماندہ مسافر، وہی صحرا، وہی دھوپ
پھر وہی آبلہ پائی، وہی رستہ، وہی دھوپ

میں وہی رات، بہ عنوانِ سکوں، سازِ خاموش
تو وہی چاند سراپا، ترا لہجہ وہی دھوپ

پھر کتابوں کی جگہ بھوک، مشقت، محنت
پھر وہی ٹاٹ بچھونا، وہی بچہ، وہی دھوپ

میں شجر سایہ فگن سب پہ عدو ہوں کہ سجن
میرا ماضی بھی کڑی دھوپ تھی فردا، وہی دھوپ

پھر کوئی شیریں طلب، سر میں جنوں کا سودا
وہی سنگلاخ چٹانیں، وہی تیشہ، وہی دھوپ

آسماں چھونے کی خواہش پہ ہے طائر نادم
پھر وہی قیدِ مسلسل، وہی پنجرہ، وہی دھوپ

پھر وہی جلتے مکاں، پھر وہی رقصِ بسمل
اور سورج کا عبیدؔ اب بھی تماشا وہی دھوپ

******
غزل

شب گزیدوں پہ عنایت کی نظر مت کیجے
آپ مختار اگر ہیں تو سحر مت کیجے

ایک دوشیزہ تھکن نام تھا جس کا شاید
کہتی ہی رہ گئی مجھ سے کہ سفر مت کیجے

اَجر دیتے ہُوئے چہرے پہ غرورِ احساں
دیکھیے اتنی بھی توہینِ ہُنر مت کیجے

آگ بھڑکے تو نہیں دیکھتی، گھر کس کا ہے
مانیے میری تو یہ شوقِ شرر مت کیجے

نامناسب ہیں یہ پہرے بھی فصیلِ جاں پر
شاید آجائے کوئی، بند یہ در مت کیجے

میں نے مانا کہ ہے نفرت ہی بدل نفرت کا 
آپ کرسکتے ہیں نفرت بھی مگر، مت کیجے

عبید الرحمٰن عبیدؔ

محبت، اظہار اور طرزِ اظہار

$
0
0

گذشتہ دو چار دن سے کراچی اور دیگر کئی شہروں میں موٹر سائیکل پر ڈبل سواری پر پابندی عائد ہے۔ اس پابندی سے وہ لوگ تو متاثر ہوتے ہی ہیں جو موٹر سائیکل استعمال کرتے ہیں ۔ ساتھ ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ کی طلب بڑھ جانے سے وہ لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں جو سفر کے لئے موٹر سائیکل استعمال نہیں کرتے۔ یعنی عمومی طور پر شہریوں کا سفر کچھ پریشان کُن ہے اِن دنوں۔

اس کے علاوہ اِن دو چار دنوں میں جلسہ جلوس کے باعث ٹریفک جام کے مسائل بھی کافی بڑھے ہوئے ہیں ، کراچی کی حد تک تو میں بھی کہہ سکتا ہوں باقی شہروں کا پتہ نہیں ۔ بڑی شاہراہوں کے علاوہ ذیلی سڑکوں اور گلی محلوں میں بھی آج کل شامیانے اور قناتیں لگا کر تقاریب کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ شاید یہ کہنا کچھ معیوب محسوس ہو لیکن حقیقت یہی ہے کہ چھوٹی بڑی سڑکوں کی یہ بندش بھی ساکنانِ شہر کے لئے پریشانی کا باعث ہیں۔

کل ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو تقریباً مُلک بھر میں موبائل فون کی سروسز بند رہیں گی ۔ موبائل فون کی سروس بند رہنے سے لوگوں کی عمومی گفتگو تو بند ہو ہی جاتی ہے اور یقیناً ایک دن کی اس بندش کا ملال بھی نہیں ہونا چاہیے، لیکن ہنگامی صورتِحال میں موبائل کمیونیکیشن کی بڑی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اس بات کا اندازہ مجھے کچھ ماہ پہلے اُس وقت ہوا جب کسی تہوار پر موبائل سروسز بند تھیں اور ہمارے محلے میں ایک صاحب اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے۔ اُنہیں ہسپتال لانے لے جانے اور رشتہ داروں سے رابطے میں اس خاندان کو کافی دشواری کا سامنا رہا ۔ اتفاق سے اُسی دن اُن کا انتقال ہو گیا لیکن تب تک موبائل سروسز بحال ہو گئیں تھیں اور خاندان بھر کو اطلاع پہنچانے کا کام آسان ہو گیا۔

ان تمام اُمور میں زیادہ تر مشکلات تو بے شک حفاظتی انتظامات اور امن و امان کی صورتِحال سے نتھی ہیں تاہم بہت سی چیزیں ایسی بھی ہیں جن سے دانستہ کوشش کرکے بچا جا سکتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ خلقِ خُدا سے بہت محبت کیا کرتے تھے اور اکثر راہوں سے کانٹے وغیرہ ہٹا دیا کرتے تھے تاکہ خلقِ خدا راستے کی بےجا تکالیف سے بچ سکے۔

بلا شبہ اللہ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا اور وہ تمام لوگ جو آپ ﷺ کی محبت کا دم بھرتے ہیں ہمارے لئے لائقِ تکریم ہیں، تاہم محبت کا اولین تقاضہ تو یہی ہے کہ اسوہء رسول ﷺ کے مطابق زندگی کو برتنے کی کوشش کی جائے۔ دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے لئے آپ ﷺ کی اطاعت اور اتباع آسان بنا دے۔ آمین

تمھارا نام بھی سُن لوں تو روشنی ہو جائے ۔ شہزاد احمد

$
0
0
غزل 

غبارِ طبع میں تھوڑی بہت کمی ہو جائے
تمھارا نام بھی سُن لوں تو روشنی ہو جائے

ذرا خیال کرو، وقت کس قدر کم ہے
میں جو قدم بھی اُٹھا لوں ، وہ آخری ہو جائے

قیامتیں تو ہمیشہ گزرتی رہتی ہیں
عذاب اُس کے لئے جس کو آگہی ہو جائے

گزر رہے ہیں مرے رات دن لڑائی میں
میں سوچتا ہوں کہ مجھ کو شکست  ہی ہو جائے

عجیب شخص ہے تبدیل ہی نہیں ہوتا
جو اُس کے ساتھ رہے چند دن وہی ہو جائے

مرا نصیب کنارہ ہو یا سمندر ہو
جو ہو گئی ہے، تو لہروں سے دشمنی ہو جائے

تمام عمر تو دوری میں کٹ گئی میری
نہ جانے کیا ہو؟ اگر اس سے دوستی ہو جائے

بس ایک وقت میں ساری بلائیں ٹوٹ پڑیں
اگر سفر یہ کٹھن ہے تو رات بھی ہو جائے

میں سو نہ جاؤں جو آسانیاں میسر ہوں
میں مر نہ جاؤں اگر ختم تشنگی ہو جائے

نہیں ضرور کہ اونچی ہو آسمانوں سے
یہی بہت ہے زمیں پاؤں پر کھڑی ہو جائے

تمام عمر سمٹ آئے ایک لمحے  میں
میں چاہتا ہوں کہ ہونا ہے جو ابھی  ہو جائے

وہی ہوں میں وہی امکاں کے کھیل ہیں شہزادؔ 
کبھی فرار بھی ممکن نہ ہو، کبھی ہو جائے

شہزادؔ احمد

دو شاعر ایک ترنگ ۔ ۲

$
0
0
ایک ہی زمین میں دو معروف شعراء، جاں نثآر اخترؔ اور احمد فرازؔ کی غزلیات پیشِ خدمت ہیں۔ دونوں ہی خوب ہیں اور اپنی مثال آپ ہیں۔

غزلیات

زمیں ہوگی کسی قاتل کا داماں، ہم نہ کہتے تھے
اکارت جائے گا خونِ شہیداں ہم نہ کہتے تھے

علاجِ چاکِ پیراہن ہوا تو اِس طرح ہوگا
سیا جائے گا کانٹوں سے گریباں ہم نہ کہتے تھے

ترانے، کچھ دبے لفظوں میں خود کو قید کرلیں گے
عجب انداز سے پھیلے گا زنداں ہم نہ کہتے تھے

کوئی اتنا نہ ہوگا لاش بھی لے جا کے دفنا دے
اِنھیں سڑکوں پر مرجائے گا انساں ہم نہ کہتے تھے

نظر لپٹی ہے شعلوں میں، لہو تپتا ہے آنکھوں میں
اُٹھا ہی چاہتا ہے کوئی طوفاں ہم نہ کہتے تھے

چھلکتے جام میں بھیگی ہوئی آنکھیں اُتر آئیں
ستائے گی کسی دن یادِ یاراں ہم نہ کہتے تھے

نئی تہذیب کیسے لکھنؤ کو راس آئے گی
اُجڑ جائے گا یہ شہرِ غزالاں ہم نہ کہتے تھے

جاں نثار اخترؔ

******

اماں مانگو نہ اُن سے جاں فگاراں ہم نہ کہتے تھے
غنیمِ شہر ہیں چابک سواراں ہم نہ کہتے تھے

خزاں نے تو فقط ملبوس چھینے تھے درختوں سے
صلیبیں بھی تراشے گی بہاراں ہم نہ کہتے تھے

ترس جائیں گی ہم سے بے نواؤں کو تری گلیاں
ہمارے بعد اے شہرِ نگاراں ہم نہ کہتے تھے

جہاں میلہ لگا ہے ناصحوں کا، غمگساروں کا
وہی ہے کوچۂ بے اعتباراں ہم نہ کہتے تھے

کوئی دہلیزِ زنداں پر کوئی دہلیزِ مقتل پر
بنے گی اس طرح تصویرِ یاراں ہم نہ کہتے تھے

فرازؔ اہلِ ریا نے شہر دشمن ہم کو ٹھہرایا
بس اس کارن کہ مدحِ شہرِ یاراں ہم نہ کہتے تھے

احمد فرازؔ

جب بھی ہنسی کی گرد میں چہرہ چھپا لیا ۔ اسلم کولسری

$
0
0
اسلم کولسری صاحب کی خوبصورت غزل، قارئینِ بلاگ کے اعلیٰ زوق کی نذر

غزل

جب بھی ہنسی کی گرد میں چہرہ چھپا لیا
بے لوث دوستی کا بڑا ہی مزہ لیا

اک لمحہء سکوں تو ملا تھا نصیب سے
لیکن  کسی شریر صدی نے چرا لیا

کانٹے سے بھی نچوڑ لی غیروں نے بوئے گُل 
یاروں نے بوئے گل سے بھی کانٹا بنا لیا

اسلم بڑے وقار سے ڈگری وصول کی
اور اُس کے بعد شہر میں خوانچہ لگا لیا

اسلم کولسری


فِگار پاؤں مرے، اشک نارسا میرے ۔ مصطفیٰ زیدی

$
0
0
غزل 

فِگار پاؤں مرے، اشک نارسا میرے
کہیں تو مِل مجھے، اے گمشدہ خدا میرے

میں شمع کُشتہ بھی تھا، صبح کی نوید بھی تھا
شکست میں کوئی انداز دیکھتا میرے

وہ دردِ دل میں ملا، سوزِجسم و جا ں میں ملا
کہاں کہاں اسے ڈھونڈا جو ساتھ تھا میرے

ہر ایک شعر میں، میں اُس کا عکس دیکھتا ہوں
مری زباں سے جو اشعار لے گیا میرے

سفر بھی میں تھا، مسا فر بھی تھا، راہ بھی میں
کوئی نہیں تھا کئی کوس ما سوا میرے

وفا کا نام بھی زندہ ہے، میں بھی زندہ ہوں
اب اپنا حال سنا ،مجھ کو بے وفا میرے

وہ چارہ گر بھی اُسے دیر تک سمجھ نہ سکا
جگر کا زخم تھا، نغموں میں ڈھل گیا میرے

مصطفٰی زیدی


شاعری (ایک نظم)

$
0
0
شاعری

رات خوشبو کا ترجمہ کرکے
میں نے قرطاسِ ساز پر رکھا
صبح دم
چہچہاتی چڑیا نے 
مجھ سے آکر کہا
یہ نغمہ ہے
میں نے دیکھا 
کہ میرے کمرے میں
چارسو تتلیاں پریشاں ہیں
اور دریچے سے جھانکتا اندر
لہلاتا گلاب تنہا ہے

محمد احمدؔ


غزل ۔ سُراغِ جادہ و منزل اگر نہیں ملتا ۔ محمد احمدؔ

$
0
0

خاکسار کی ایک پرانی غزل قارئینِ بلاگ کی نذر:

غزل

سُراغِ جادہ و منزل اگر نہیں ملتا
ہمیں کہیں سے جوازِ سفر نہیں ملتا

لکھیں بھی دشت نوردی کا کچھ سبب تو کیا
بجُز کہ قیس کو لیلیٰ کا گھر نہیں ملتا

یہاں فصیلِ انا حائلِ مسیحائی
وہاں وہ لوگ جنہیں چارہ گر نہیں ملتا

ہزار کو چہء نکہت میں ڈالیے ڈیرے 
مگر وہ پھول سرِ رہگزر نہیں ملتا

پھر آبیاریِ نخلِ سخن نہیں ہوتی
دلِ حزیں جو پسِ چشمِ تر نہیں ملتا

پیامِ شوق کو گیتوں میں ڈھالیے کیوں کر
مزاجِ بادِ سُبک بھی اگر نہیں ملتا

چلو کہ پھر سے رفیقوں کی بزم سونی ہے 
چلو کہ سنگِ ملامت کو سر نہیں ملتا

بشر بنامِ بشر تو بہت ہیں دنیا میں 
بشر کی خوبیوں والا مگر نہیں ملتا

چلو پھر اُس کے جھروکے میں پھول رکھ آئیں 
سخن کوئی جو اگر معتبر نہیں ملتا

جہاں میں ایک تمہی منفرد نہیں احمدؔ
یہاں تو کوئی بھی مثلِ دگر نہیں ملتا​

محمد احمدؔ

پیرزادہ قاسم کی دو خوبصورت غزلیں

$
0
0


سفر نصیب ہیں ہم کو سفر میں رہنے دو
سفالِ جاں کو کفِ کوزہ گر میں رہنے دو

ہمیں خبر ہے کسے اعتبار کہتے ہیں
سخن گروں کو صفِ معتبر میں رہنے دو

تمھاری خیرہ سری بھی جواز ڈھونڈے گی
بلا سے کوئی بھی سودا ہو سر میں رہنے دو

یہ برگ و بار بھی لے جاؤ چُوبِ جاں بھی مگر
نمو کی ایک رمق تو شجر میں رہنے دو

اسیر کب یہ قفس ساتھ لے کے اُڑتے ہیں
رہے جو حسرتِ پرواز پر میں رہنے دو

----

میں سمجھا مری گھٹن مٹانے آیا تھا
وہ جھونکا تو دیا بجھانے آیا تھا

موسمِ گل اُس بار بھی آیا تھا لیکن
کیا آیا بس خاک اُڑانے آیا تھا

چشم زدن میں ساری بستی ڈوب گئی
دریا کس کی پیاس بجھانے آیا تھا

مہر نشاں، زرکار قبا، وہ یار مرا
مجھ کو سنہرے خواب دکھانے آیا تھا

خالی چھتری دیکھ فسردہ لوٹ گیا
بچھڑا پنچھی اپنے ٹھکانے آیا تھا


پیرزادہ قاسم

میٹر شارٹ

$
0
0


آج کی صبح بڑی خوشگوار تھی، مطلع ابر آلود  تھا اور ہلکی ہلکی پھوار دھرتی کے دکھتے سینے  پر پھائے رکھ رہی تھی۔  جب میں دفتر جانے کے لئے نکلا تو ایک بہت خوبصورت گیت لبوں پر تھا۔ ہوا میں رقص کرتی بارش کی چھوٹی چھوٹی سی بوندوں میں بلا کا  ترنم تھا بالکل ایسے ہی جیسے گیتوں میں نغمگی ہوتی  ہے۔ الفاظ اور احساسات جس قدر ہم آہنگ ہو جائیں گیتوں کی چاشنی اُتنی ہی بڑھ جاتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی شرارتی بوندیں  ہوا میں اور گیت کے مسکراتے مصرعے میرے ہونٹوں پر رقصاں تھے (جنہیں صرف میں ہی سُن سکتا تھا)۔ کسی نے صحیح کہا  ہے کہ خوشی ایک احساس کا نام ہے چاہو تو اُسے محسوس کرو اور چاہو  تو اس احساس سے اجنبی ہو جاؤ۔ 

بارش بڑی عجیب شے ہوتی ہے یہ ہر نشّے کو فزوں تر کر دیتی ہے۔  آپ خوش ہوں تو بارش آپ کی خوشی کو سرخوشی میں بدل سکتی ہے اور آپ غمگین ہوں تو یہی بارش کے قطرے آپ کے آنسو بن کر ساری دنیا بھگونے پر تُل جاتے ہیں۔ غمگساری کی اس سے بڑی مثال شاید ہی دنیا میں کہیں ملے۔  تاہم  ایسے ہمدم اور ایسے غمگسار صرف احساس رکھنے والوں کے ہی نصیب میں آتے ہیں۔  یوں تو سبھی  لوگ کسی نہ کسی حد تک حساس ہوتے ہیں لیکن  کچھ لوگ اپنی خوشیوں اور غم کو سیلیبریٹ کرنا سیکھ لیتے ہیں۔   اگر آپ زندگی میں ان چیزوں کو اہمیت نہیں دیتے تو بھی کوئی بات نہیں۔  زندگی دو جمع دو چار کرکے بھی گزاری جا سکتی ہے۔ 

بہرکیف ، آج  اس اچھے موسم کے طفیل  خیال آیا کہ شعر و نغمہ  سے ہماری  وابستگی کی بابت  کچھ باتیں ہی ہو جائیں۔ اسے اتفاق ہی کہیے کہ اوائل عمری میں ہی  کافی گیت اور نغمے  سُنے ۔ یہ نغمے زیادہ تر اِدھر اُدھر سنے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ مونگ پھلی والا بھی ٹیپ ریکارڈ  چلائے بغیر آگے نہیں بڑھتا تھا۔ پھر شوق ہو چلا تو خود سے بھی ریکارڈڈ گیت سننے کا اہتمام کیا۔ ہندوستانی (اردو یا ہندی  جو بھی آپ کہنا پسند کریں) اور پاکستانی گیت سنے۔ فلمی اور غیر فلمی ہر طرح کے۔  غزلیات بھی بہت سنیں،  انوپ جلوٹا  سے جگجیت سنگھ تک،  مہدی حسن  سے غلام علی  تک، اقبال بانو سے گلبہار بانو تک ،  نیرہ نور سے ٹینا ثانی تک، یہاں تک کہ سلمان علوی اور  سجاد علی کی غزلیات بھی۔  وقت  گزرنے کے ساتھ ساتھ  احساس ہو ا کہ  ہمیں موسیقی سے زیادہ شاعری سے اُنسیت ہے ۔ اکثر پورے پورے نغمے یاد ہو گئے،  کئی کئی  غزلیں ازبر ہو گئیں۔ جب  کبھی ساز و آواز کا سامان ناپید  ہوتا  تب بھی   ذہن میں موجود  ریکارڈ   سے محظوظ  ہونے کا موقع ہمہ وقت موجود رہتا۔  پھر شاعری پڑھنے کا شوق بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ اس قدر شاعری سننے اور پڑھنے سے  ذہن کی  غنائیت اورنغمگی سے شناسائی سی ہو گئی اور شاعری کے لئے درکار "میٹر"ذہن میں استوار ہو  گیا۔  سو جب کبھی کسی نغمے کا آہنگ متاثر ہوتا نظر آتا  تو اندازہ ہو جاتا۔  شاید یہی وجہ رہی کہ جب ہم نے شاعری کی کوشش کی تو بہت زیادہ دشواری پیش نہیں آئی اور آہنگ سے متعلق معاملات باآسانی نمٹ گئے ۔ اگر غلطیاں ہوئی بھی تو تکنیکی لاعلمی یا تلفظ کی غلطیوں کے باعث۔  اور ان دو چیزوں کا سیکھنا تو عمر بھر چلتا ہی رہتا ہے۔ 

اس سلسلے میں ہم اس لئے بھی خوش نصیب رہے کہ جب ہم نے گیت سماعت کرنے شروع کیے توعہدِ حاضر سے زیادہ عہدِ قدیم میں دلچسپی لی سو بہت اعلیٰ پائے کے شعراء کو اس میدان میں مصروفِ عمل پایا۔ ان گیت نگاروں کے گیت عمومی شاعری کے معیار کے نہیں تو اُن سے کم تر بھی نہیں تھے۔  ان اعلیٰ گیت نگاروں میں مجروح سلطان پوری، مجاز، ساحر لدھیانوی،  اندیور، حسرت جے پوری، شکیل بدایونی، کیفی اعظمی، آنند بخشی، انجان، جاں نثار اختر، ندا فاضلی اور آگے چل کر گلزار اور جاوید اختر جیسے قادر الکلام لوگ شامل رہے۔ پاکستانی گیت کم اورغزلیں زیادہ سُنی جو زیادہ تر معروف شعراء کے کلام سے انتخاب کی گئیں تھیں۔ پاکستانی  پرانے گیت بھی سنے جو اپنی مثال آپ تھے۔  پھر گانے والوں نے تو میر وغالب کے کلام کو بھی نہیں بخشا اور اکثر نے حق بھی ادا کیا۔

گو کہ یہ شوق یقیناً وقت کے زیاں کا باعث بھی رہا ہوگا تاہم کچھ نہ کچھ تو سیکھ ہی لیا۔لیکن اب کبھی شومیء قسمت سے نئے ہندی گیت سننے کا اتفاق ہو جائے تو خیال  آتا ہے کہ یہ کس قسم کے گانے ہیں اور یہ کون سے گیت نگار ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ فلمی گیتوں کو غیر اخلاقی اور سوقیانہ خیال کیا جاتا تھا اور کسی حد تک یہ بات درست بھی تھی۔ تاہم  آج کل کے گانوں  کے لئے غیراخلاقی اورسوقیانہ قسم کے الفاظ بھی استعمال کیے جائیں تو بھی "حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا" والی بات ہوگی۔  نہ آوازیں اچھی ہیں  نہ شاعری۔ بلکہ اُسے شاعری کہنا بھی شاعری کی سخت توہین ہے۔ یہی گلہ ایک بار ہم نے اپنے ایک دوست سے کیا تو کہنے لگے کہ یہ گانے سننے والے نہیں دیکھنے والے ہیں۔ اس بات کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ صد شکر کہ ہم نے یہ گانے نہیں سُنے ورنہ اگر ہم نے یہ گانے سُنے ہوتے تو یقیناً ہمارا ہی نہیں شاعری کا بھی "میٹر شارٹ"ہو جاتا۔

 نوٹ: گیت نگاروں کو یاد کرنے کے لئے ویب سرچ سے مدد لی گئی ہے۔  نیز یہ کہ  ناموں میں تقدیم و تاخیر و مرتبہ وغیرہ کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا جا سکا ہے۔

ناصح (ایک افسانہ)

$
0
0

ناصح 

 از محمداحمدؔ
بات مولوی صاحب کی بھی ٹھیک تھی۔ واقعی کم از کم ایک بار تو سمجھانا چاہیے ایسے لوگوں کو جو دوسروں کی حق تلفی کرتے ہیں یا دوسروں کا مال ناحق کھاتے ہیں۔ لیکن نہ جانے کیا بات تھی کہ مولوی صاحب یہ بات خطبے میں کبھی نہیں کہتے تھے ہاں جب کبھی بیٹھے بیٹھے کسی چوری چکاری کا ذکر آئے تب وہ یہ بات ضرور کہتے ۔ خطبے میں تو وہ ایسی مشکل مشکل باتیں کرتے کہ اُس کے تو سر پر سے ہی گزر جاتیں اور وہ گردن ہلا کر رہ جاتا کہ مولوی صاحب جو بھی کہہ رہے ہیں ٹھیک ہی کہہ رہے ہوں گے آخر کو اتنا علم ہے اُن کے پاس۔

وہ سوچتا کہ ایسے لوگوں کو کیسے سمجھایا جاسکتا ہے جو اچانک سے آ دھمکتے ہیں اور بندوق کے زور پر لوگوں کی نقدی اور قیمتی اشیاء لے کر یہ جا اور وہ جا ہوجاتے ہیں۔ اب بھلا اُن سے کون کہے کہ بھیا ذرا دو گھڑی رُک کر ہماری بات ہی سُن لو۔ اور جب شیطان اُن کے دماغ میں گھسا ہوا ہو تو اُنہیں اچھے بھلے کی کیا خاک سمجھ آئے گی۔ 

اُسے پچھلے مہینے کا وہ واقعہ یاد آیا جب ایک دن اُس کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ رات ساڑھے دس گیارہ بجے وہ اپنی موٹر بائیک پر گھر جا رہا تھا کہ دو لڑکے ایک موٹر سائیکل پر آئے اور اُس کا راستہ روک دیا۔ لامحالہ اُسے رُکنا پڑا ۔وہ بھی سمجھ گیا کہ یہ کیا معاملہ ہو سکتا ہے اور ہوا بھی وہی۔ اُن میں سے ایک کے ہاتھ میں پستول تھا اور وہی دیرینہ مطالبہ ہونٹوں پر، گالیوں کی بوچھار اپنی جگہ تھی۔ اُس نے جھٹ موبائل فون اور جیب میں جتنے بھی پیسے تھے وہ نکال کر اُن کے ہاتھ پر رکھ دیے ۔ جان ہے تو جہان ہے۔ اُسے گھی کے اشتہار والی وہی بات یاد آگئی جو پہلی بار دادی جان کے منہ سے سُنی تھی۔ بکتا جھکتا گھر آگیا ۔ 

پھر چار چھ دن میں زندگی معمول پر آگئی۔ اب کے اُس نے پہلے سے بھی سستا موبائل خریدا تھا ۔ وہ راستہ البتہ اُس نے چھوڑ دیا ۔اب وہ دوسرے راستے سے آیا جایا کرتا ، یہ راستہ کچھ طویل تھا لیکن پر رونق تھا ۔ حالانکہ اُسے معلوم تھا کہ رونق اور ویرانی سے بھی ان لُٹیروں کو کوئی سرو کار نہیں تھا۔ اُنہیں کون سے کوئی روکنے ٹوکنے والا تھا جو وہ بارونق اور سنسان علاقوں میں تمیز کرتے۔

اب بھلا میں اُنہیں کیسے سمجھا سکتا ہوں ۔ اُس نے تصور میں مولوی صاحب سے کہا ۔ لیکن پھر خیال آیا کہ مولوی صاحب تو مسجد میں رہ گئے اور وہ سوچتے سوچتے گھر تک پہنچ گیا ۔ سب باتیں اپنی جگہ لیکن مولوی صاحب کی بات اُس کے دل کو لگی تھی۔ واقعی جب تک کسی کو سمجھانے والا کوئی نہ ہو، وہ راہِ راست پر کیسے آئے گا۔ پھر چور ڈاکو کون سے سب کے سامنے اپنے کارناموں کا اقرار کرتے پھرتے ہیں کہ اُن کا ماجرہ سن کر اُن کو سمجھا یا جائے۔ 

سوچتے سوچتے نہ جانے کیسے اُس کے دماغ میں ایک ترکیب آ ہی گئی۔ وہ اس وقت کا انتظار کرنے لگا کہ جب اگلے روز ظہر کے درس کے بعد اُس کی مولوی صاحب سے ملاقات ہونی تھی۔ وہ اپنے ذہن میں ان باتوں کو ترتیب دے رہا تھا ۔ آخر کو مولوی صاحب کو سمجھانا بھی تو تھا۔

اللہ اللہ کرکے وہ وقت بھی آ ہی گیا جب اُس نے مولوی صاحب کو اپنی تجویز پیش کرنی تھی۔ نماز ہوئی پھر درس شروع ہوا۔ مولوی صاحب روز کی طرح کسی کتاب میں سے کچھ واقعات سُنا رہے تھے اور لوگ سر جھکائے سُن رہے تھے۔ نہ جانے سُن رہے تھے یا باقی لوگ بھی اُس کی طرح اپنی اپنی سوچوں میں کھوئے ہوئے تھے۔ درس ختم ہوا تو دعا ہوئی ۔ دعا بھی وہی روز والی ہی تھی شاید یہ دعائیں پوری ہوتیں تو نئی دعائیں مانگی جاتیں۔ 

جب سب لوگ مولوی صاحب سے مصافحہ کرکے چلے گئے تو وہ ذرا کھسک کر مولوی صاحب کے قریب ہو گیا۔ اور تھوڑا سا ہمت کرکے کہنے لگا۔
"مولوی صاحب کل آپ بات کر رہے تھے نا کہ لوگوں کو سمجھانا چاہیے ۔خاص طور پر اُن کو جو چوری چکاری کرتے ہیں اور لوگوں کی حق تلفی کرتے ہیں۔ "ہلکی سے ہکلاہٹ کے بعد وہ روانی سے بولنے لگا۔
"ہاں ہاں"۔ مولوی صاحب کے لہجے میں تحیّر نمایا ں تھا۔
"تو مولوی صاحب میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے۔ "اُس کی آنکھیں مولوی صاحب کے چہرے پر ٹکی تھیں۔ اور مولوی صاحب ایسے حیران ہوئے جا رہے تھے کہ جیسے طلسم ہوش ربا کا کوئی منظر اُن کے سامنے زندہ ہو گیا ہو۔
"ہاں بولو! "مولوی صاحب نے کھر کھراتی آواز میں کہا۔
"مولوی صاحب! میں چاہتا ہوں کہ آپ ان چوروں کے نام ایک خط لکھ دیں اور اُس خط میں اُن کو سمجھائیں کہ یہ چوری اور ڈکیتی وغیرہ بہت ہی بُری بات ہے۔ اور جوبھی اس بارے میں اللہ رسول کا حکم ہے وہ سب خط میں لکھ دیں۔ "مولوی صاحب کچھ حیرانی اور کچھ مسکراہٹ کے ساتھ اُس دیکھ رہے تھے۔
"اچھا ! لیکن یہ خط اُنہیں پہنچائے گا کون؟"مولوی صاحب نے اپنی دانست میں بڑا اچھا نکتہ اُٹھایا۔
"آپ ایسا کریں کہ ایک دفعہ اُن کے نام خط لکھ لیں۔"اُس نے اپنا سوچا ہوا منصوبہ آشکار کرنا شروع کیا۔ "پھر ہم اُس خط کی بہت ساری کاپیاں کروا کر جمعے کے دن بانٹ دیں گے۔ جس جس کو یہ کاپی ملے وہ مزید دس کاپیاں کروا کر اپنے جاننے والے لوگوں میں بانٹ دے۔ "وہ سانس لینے کو رُکا۔
"پھر جب خدانخواستہ کسی کے ساتھ چوری ڈکیتی کا واقعہ پیش آئے تو وہ یہ خط اُن ڈاکوؤں کو تھما دے۔"اُس نے ایک گہری سانس لی۔
مولوی صاحب تحیر اور تبسم کے ہنڈولے پر جھول رہے تھے۔
کچھ توقف کے بعد مولوی صاحب نے بامشکل اپنی مسکراہٹ پر قابو پایا اور اُسے خط لکھنے کی یقین دہانی کروا دی۔ آج وہ کافی مطمئن تھا۔

اگلے دو چار دن وہ کسی کام سے شہر سے باہر رہا سو مولوی صاحب سے ملاقات نہیں ہو سکی۔ اس دوران جمعہ بھی آ کر گزر گیا۔ اتوار والے روز وہ پھر مولوی صاحب کے سامنے بیٹھا تھا ۔
"مولوی صاحب ! وہ خط لکھ دیا آپ نے؟"مولوی صاحب نے اُس کی طرف ایسے دیکھا جیسے پوچھ رہے ہوں کہ کیا واقعی لکھنا تھا۔
"اگر نہیں لکھا تو اب لکھ دیں۔"یہاں خامشی کا مطلب نیم رضا مندی سمجھنا اُس کے لئے دشوار ہو رہا تھا۔
"اچھا !!! چلو آج رات کو لکھ دوں گا۔"مولوی صاحب نے ہار مانتے ہوئے کہا۔

اگلے روز مولوی صاحب نے تہہ کیا ہوا ایک کاغذ اُس کے ہاتھ میں تھما دیا۔ اپنے منصوبے کو مجسم ہوتا دیکھ کر اُسے بڑی خوشی ہوئی اور وہ اس خوشی میں یہ بھی پوچھنا بھول گیا کہ جمعے کے روز اس خط کی کاپیاں تقسیم کرنے کے لئے مولوی صاحب نے کیا اقدام کیا اور کیا اسے بھی اس سلسلے میں کچھ کرنا ہوگا۔

بہرکیف اپنی حد تک آج وہ مطمئن تھا ۔ مولوی صاحب کا چوروں کے نام لکھا خط اُس کی جیب میں تھا اب جیسے ہی کبھی اُس کی اس قماش کے لوگوں سے ملاقات ہوتی باقی کا کام آسان ہی تھا۔ جمعے کے روز علاقے کے بیشتر لوگوں تک یہ خط پہنچ ہی جانا تھا۔ 

دو چار روز ایسے ہی گزر گئے ۔ اس جمعے مولوی صاحب کسی اور مسجد میں خطبہ دینے گئے تھے اور یہاں کی ذمہ داری موذّن صاحب کی تھی۔ سو اُس دن خط کی تقسیم کی اُمید رکھنا بے کار تھی ۔ بہرکیف وہ تو اس بات پر ہی مطمئن تھا کہ اب وہ اپنے حصے کا فرض نبھا سکتا ہے۔ رہے علاقے کے باقی لوگ ۔ تو وہ جانیں اور مولوی صاحب جانیں۔

جب سے خط اُس کی جیب میں آیا تھا اُس کے طور اطوار بدل گئے تھے۔ اب اگر رات گئے بھی اُسے کہیں جانا پڑتا تو وہ گھبراتا نہیں تھا ۔ بلکہ اب تو اکثر وہ گھر واپسی پر اُس رستے کا انتخاب کرتا جو سنسان اور چھوٹا تھا۔ اُسے اندازہ بھی نہیں ہوا کہ کب اُس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہو گئی کہ جلد سے جلد کوئی بد قماش شخص اُس سے ٹکرائے تو وہ اُسے خط تھما سکے اور اپنا فرض پورا کر سکے۔ وہ رات گئے تاریک راستوں میں نکل جاتا۔ جہاں کہیں اُسے کوئی مشکوک شخص نظر آتا وہ اپنی رفتار ہلکی کر لیتا ۔ لیکن ایسا لگتا تھا کہ چوروں ڈکیتوں نے تو اُس کی طرف دیکھنا بند ہی کر دیا تھا۔ خط اُس کی جیب میں ہمہ وقت موجود رہتا اور وہ دھڑلے سے پورے شہر میں گھومتا رہتا۔

پھر ایک روز اُس کی یہ تمنا بھی پوری ہوگئی لٹیروں نے آخر اُسے روک ہی لیا۔ اُس کے چہرے پر عجیب سی خوشی تھی ۔ اُس نے اپنے جیب سے پیسے نکالتے ہوئے نوٹوں کے بیچ خط اس طرح اٹکا دیا کہ منتقلی میں خط کے گرنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ گھر پہنچا تو بہت مطمئن تھا۔ دل میں یہی خیال تھا کہ کل سویرے ہی مولوی صاحب کو بتاؤں گا کہ اُس نے اپنی ذمہ داری نبھا دی ہے۔

اگلی صبح جب وہ گھر سے نکلا تو ایک عجیب سا خوف اُ سے محسوس ہوا ، جسے وہ کوئی نام نہیں دے سکا۔ جب وہ اُس مقام پر پہنچا جہاں کل رات اُس کی لٹیروں سے ملاقات ہوئی تھی تو وہ ایک لمحے کے لئے رُکا۔ سڑک کے کنارے تہہ کیا ہوا ایک کاغذ پڑا ہوا تھا ۔ وہ بہت تیزی سے موٹر سائکل سے اُترا اور کاغذ اُٹھا کر جھاڑنے لگا۔ اگلے ہی لمحوں میں وہ کا غذ اُس کی جیب میں تھا ،اپنی مستقل جگہ پر۔ اب وہ پھر سے خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگا ، اُسے مختصر اور سنُسان راستوں کی عادت جو ہو گئی تھی۔

*******​
Viewing all 347 articles
Browse latest View live